پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن)کا مفاہمتی ومزاحمتی بیانیہ

Apr 30, 2024

میاں حبیب

پاکستان کے بدلتے سیاسی حالات میں تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش کیا مسلم لیگ ن کی اپنی خواہش ہے، وقت کی ضرورت ہے یا پھر کہیں سے حکم ملا ہے کہ تحریک انصاف کو انگیج کیا جائے۔ تحریک انصاف سے ڈائیلاگ کی پیش رفت اور مسلم لیگ ن کے اندر سیاسی بیزاری دونوں بہت اہم ہیں۔ مسلم لیگ ن تحریک انصاف سے مخاصمت میں اس حد تک آگے جا چکی تھی کہ وہ کسی صورت ان سے بات کرنے کے لیے تیار نہ تھی بلکہ تحریک انصاف پر پابندیاں لگانے اور 9مئی کے واقعات میں ملوث ساری تحریک انصاف کو سخت سزائیں دینے کے مطالبے پر قائم تھی۔ پھر اچانک آوازیں آنا شروع ہو گئیں کہ آئیں بیٹھیں، بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔ یہ بات وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے ذریعے سے کروائی گئی پھر اس میں عرفان صدیقی اور دوسرے لوگوں نے بھی حصہ ڈالا حالانکہ یہی مسلم لیگی کہا کرتے تھے کہ تحریک انصاف دہشت گرد تنظیم ہے ان سے بات نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے ن لیگ کی پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور واضح طور پر کہا ہے کہ آپ کے پلے کیا ہے جو آپ سے بات کریں۔ ہم ان سے بات کریں گے جن کے کچھ، ہتھ پلے ہے۔ اس میں اب کوئی راز نہیں رہا کہ سیاسی معاملات میں کس کا کیا کردار ہے اور ڈوریاں کہاں سے ہلتی ہیں۔ مسلم لیگ ن جو کہ مفاہمتی سیاست کے بل بوتے پر نہ صرف اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے بلکہ اپنی جماعت کے تمام اقابرین کے مقدمات بھی ختم کروانے کا معرکہ سر کر چکی ہے۔  اب انھیں مستقبل کی سیاست اور عوامی پذیرائی حاصل کرنے کے لیے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے چیلنجز درپیش ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے حکمرانوں کو عوامی نفرت کا سامنا ہے ہر روز بڑھتی مہنگائی بیروزگاری امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اترنا سیاست کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے اصلی قائد میاں نواز شریف کو دکھ ہے کہ انھیں جو سبز باغ دکھائے گئے تھے اور جو وعدے وعید کرکے انھیں پاکستان لایا گیا تھا وہ پورے نہیں کیے گئے۔ انھیں چوتھی دفعہ وزیراعظم نہیں بنایا گیا۔ ان کی بیزاری اب واضح ہونا شروع ہو گئی ہے۔ پہلے تو کہا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف کو وطن سے باہر نہیں جانے دیا جا رہا پھر چین کے دورہ کا ڈول ڈال کے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چین سے میاں نواز شریف نے رانا ثناء اللہ کو فون کرکے فوری طور پر پارٹی اجلاس بلوانے کی ہدایت کی جس میں میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت دینے اور حکومتی اور پارٹی عہدے علیحدہ علیحدہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ماضی میں مسلم لیگ ن کے اندر پایا جانے والا مفاہمتی گروپ اور مزاحمتی گروپ بحال ہو چکا۔ مسلم لیگ ن نے دوبارہ پرانے پیٹرن پر سیاست کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت میاں شہباز شریف وزیراعظم اور پارٹی صدر ہیں ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یس ہے۔ وہ اپنے پرانے کردار کے مطابق مفاہمتی سیاست کے ذریعے حکومت کرتے رہیں گے جبکہ میاں نواز شریف پارٹی کی بقاء کے لیے مزاحمتی سیاست کو بڑھاوا دینے کی خاطر پارٹی صدارت حاصل کرکے نہ صرف حکومت پر تنقید کرکے لوگوں کو یہ باور کرائیں گے کہ حکومت انکی مرضی کے مطابق پرفارم نہیں کر رہی بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر دباو ڈال کر اپنی ضرورت محسوس کروائیں گے۔ میاں نواز شریف کا مزاحمتی گروپ اس کی راہ ہموار کر رہا ہے جس میں خواجہ سعد رفیق، میاں جاوید لطیف، رانا ثناء اللہ اور ان جیسے دیگر لوگوں نے آوازیں بلند کرنا شروع کر دی ہیں۔ انتخابات میں بے شک ن لیگ کو قومی اسمبلی میں 120 نشستیں مل چکی ہیں اور اتحادی جماعتوں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی نشستیں ملا کر دوتہائی اکثریت بن چکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوتہائی اکثریت کے باوجود معاملات نہیں چل رہے۔ حکومت کیخلاف اپوزیشن کی جماعتوں کا اتحاد زور پکڑ رہا ہے حکومت اور اس کو چلانے والے سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو اعتماد میں لیے بغیر سسٹم نہیں چلے گا لہذا احتجاج کو روکنے اور تحریک انصاف کی عوامی قوت کو کنٹرول کرنے کے لیے انھیں انگیج کیا جا رہا ہے۔ لیکن تحریک انصاف اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں البتہ جب بات چیت کا راستہ نکلتا ہے تو پھر کچھ لو اور کچھ دو پر بات ختم ہو جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف پارٹی ورکرز کے خلاف مقدمات واپس لینے اور انھیں آزادانہ سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی شرط پر سسٹم کو چلانے پر آمادگی ظاہر کر دے۔ تحریک انصاف کی مخالف سیاسی قوتوں نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ عوام کو یہ باور کروا سکیں کہ عمران خان اور ہم میں کوئی فرق نہیں۔ اس پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں لیکن عوام سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں 35 ،40 سال تک اقتدار میں رہی ہیں اور عمران خان کو ایک بار بھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود تحریک انصاف کی مقبولیت کو کم نہیں کیا جا سکا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے یا ڈائیلاگ کی تھیوری کوئی نیا جال ہے۔

مزیدخبریں