داستان طلسم ہوشربا کے اہم کردار افراسیاب جادو سے سب ادب شناس واقف ہیں جو لاچین جیسے نیک دل حکمران کے ملک پر جادو کے زور پر قبضہ کرکے حکمران بن بیٹھا تھا۔ اس نے ملک کا نقشہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک طرف امراء اور درباریوں کی دنیا تھی تو دوسری طرف پھٹے حال عوام اور درمیان میں دریائے خون جسے عبور کرکے امیروں کی دنیا میں پہنچنے کی کوشش کرنے والا اس میں گر تو سکتا تھا لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔
کچھ عرصہ سے دنیا بھر میں فری مارکیٹ اکانومی اور نیو لبرل ازم(Neo Liberalism) کے نام پر وہ روح فرسا تجربات ہوئے ہیں کہ مغرب میں بیٹھے دانشور بھی کانپ اٹھے ہیں کیونکہ ان تجربات نے دنیا کو طلسم ہوشربا بنا کر رکھ دیا ہے جس کے ایک طرف وسائل ہی وسائل اور امیر دنیا ہے اور دوسری طرف محرومیاں ہی محرومیاں اور وہ بھی اتنی کہ کوئی ’’اپنے ویرانے کا اچھا سا نام رکھنے کو بھی ترس جائے‘‘
اس عدم مساوات کی آنچ امیر دنیا کے کئی دانشور بھی شدت سے محسوس کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اپنی کتاب (End of History) میں مغربی جمہوریت کی مکمل فتح کا دعویٰ کرنے والے فرانسس فوکو یاما بھی اپنی اس مشہور عالم تصنیف کے تیس بتیس برس بعد اپنی ایک اور کتاب (Neo Liberalism and its disconterts) میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ’’یورپ میں مذہبی جنگوں اور نیشنلزم کی کوکھ سے جنم لینے والا لبرل ازم بحران کا شکار ہو چکا ہے۔
اسی طرح ایک عالمی دانشور علی اے علاوی بھی ہیں جو اپنی کتاب (Rich world, poor world) میں اس عدم مساوات پر طویل روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ غریب دنیا میں بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم کس طرح ان معاشروں کو بے راہ روی، لاقانونیت اور بے وسیلہ کر رہی ہے۔ امیر دنیا کی ’’دولت ہضم‘‘ پالیسیاں اس بے وسیلہ غریب دنیا کے دکھوں میں اضافہ کر رہی ہیں اور دوسری طرف اس غریب دنیا پر زیادہ تر کرپٹ اور عقل سے عاری ارباب اختیار مسلط ہیں جو امیر دنیا سے مسلسل رابطے میں رہ کر نالائقیوں کے پہاڑ کھڑے کرتے، بدعنوانی کا زہر پھیلاتے اور میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے چلے جا رہے ہیں۔ گویا بندروں کے ہاتھ میں ماچس ہے جو اربوں غریب لوگوں کی آس، امیدکی لنکا کو راکھ کا ڈھیر بناتی چلی جا رہی ہے اور وہ مایوسیوں کے ختم نہ ہونے والے پنجے گاڑے چلی جا رہی ہے۔غریب دنیا کے حالات دیکھ کر سعادت حسن منٹو کا منگو ٹانگے والا یاد آ جاتا ہے جو انگریز کے 1935ء کے ایکٹ کو نیا قانون سمجھ کر ایک گورے آقا سے الجھ بیٹھا تھا اور نتیجتاً اپنی ہڈیاں سہلاتا جیل جانے پر مجبور ہو گیا تھا۔
فری مارکیٹ، اکانومی، نیو لبرل ازم یا سوشل ازم سب نے انسانیت کے جسم پر مقدور بھر اتنے چرکے لگائے ہیں کہ نئے خواب دیکھنے کیلئے درد سے کراہتی آنکھیں موندنا تک ناممکن ہو گیا ہے۔یہ احوال غریب دنیا کے بظاہر ترقی کرتے ہوئے اور شرح نمو بڑھاتے ہوئے ملکوں کا بھی ہے جہاں ان ملکوں کے باسی توکب کے غربت کی لکیریں عبور کر چکے ہیں تاہم سرکاری خزانہ میں ڈالروں کے ڈھیر ضرور بڑھ رہے ہیں۔
جو لوگ امیر دنیا اور غریب دنیا سے متعلق ان باتوں سے متفق نہیں اور نیو لبرل ازم کو مورد الزام ٹھہرانے کے حامی بھی نہیں کیا ان دو سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں کہ دنیا بھر کی دولت کا 90 فیصد سے بھی زائد ارتکاز امیر دنیا کے تین چار سو افراد کے پاس کیا کر رہا ہے اور اب جبکہ مستند عالمی اعدادو شمار کے مطابق اس برس دنیا کی شرح نمو مجموعی طور پر صفر رہی ہے تو یہ نیو لبرل ازم کا بحران نہیں تو پھر کیا ہے؟دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز پر ہی موقوف نہیں بلکہ امیر دنیا کی صنعتی عیاشیوں کا 90 فیصد بوجھ بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے نام پر غریب دنیا کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ امیر دنیا اس زبوں حالی پر ٹسوے تو بہا رہی ہے لیکن عملی صورتحال اس شکاری سے مختلف نہیں جو روتا بھی جاتا ہے اور پرندے ذبح بھی کرتا جاتا ہے۔
عالمی تفاوت کو دیکھتے ہوئے جنگل میں رہنے والے ہاتھی اور ہرن کی دوستی یاد آ گئی۔ ہاتھی اپنے دوست کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے لئے پھرتا تھا۔ ہرن کے ملنے والے اسے نصیحت کرتے کہ ہاتھی کی محبت اور مہربانی اپنی جگہ لیکن دوستی برابری والوں سے ہی سجتی ہے۔ طاقتور کا کیا اعتبار کب موڈ بدل جائے؟ ہرن سنی ان سنی کرتا رہا اور دوستی چلتی رہی۔ ایک دن دونوں دوست کھیلتے اور باتیں کرتے دور نکل آئے۔ ندی آ گئی‘ ہاتھی نے ہرن کو پیٹھ پر سوار کرایا اور ندی پار کر لی۔ ہرن کی بدقسمتی۔ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ منیر نیازی کے دریا والے شعر کی طرح ایک اور ندی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اس بار ہاتھی کا موڈ بدل گیا اور اسے برابری کے عالمی قوانین یاد آ گئے جن کا اکثر ہرن تذکرہ کیا کرتا تھا۔ چنانچہ گویا ہوا کہ عالمی قوانین انصاف کے مطابق ہونا تو یہ چاہئے کہ تم مجھے اپنے اوپر سوار کرا کے یہ ندی پار کراؤ۔ ہرن نے ’’رحم جہاں پناہ‘‘ کی بہت سی صدائیں لگائیں اور ہاتھی کو موسٹ الائی آف دی الائیز ہونیکا واسطہ بھی دیا لیکن بے سود چنانچہ وہی ہوا جو امیر اور غریب کے تصفیہ کے موقع پر اقوام متحدہ میں ہوا کرتا ہے۔
ان حالات میں غریب دنیا اپنے حالات کیسے بدل سکتی ہے۔ مفادات کے نام پر جڑے اس گلوبل ویلج میں آسودگی سے زندہ رہنے کیلئے اپنی دنیا آپ ہی پیدا کرنا ہو گی۔ بظاہر ’’ایک‘‘ دکھائی دینے والا گلوبل ویلج دراصل زیردست مسابقت کی دنیا ہے اور مسابقت کی اس دنیا میں خود انحصاری کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ اب دنیا کی باسی اور استعمال شدہ ٹیکنالوجی سے پرہیز کر کے اپنے اندر جدت و صلاحیت پیدا کرنا ہو گی جس کیلئے معیاری تعلیم کو جی ہاں صرف تعلیم نہیں معیاری تعلیم کو، جس میں اول درجہ کی ہنرمندی بھی شامل ہوتی ہے، فروغ دینا ہو گا۔ اور اس کیلئے میرٹ پر عمل لازمی بنانا ہو گا۔ روکھی سوکھی کھا کر بڑی محنت سے آگے بڑھنا ہو گا۔ معاشرے میں سائنسی اور عقلیت پر مبنی انداز فکر کو فروغ دینا ہو گا۔ اور سچ کو آرڈر آف دی ڈے بنانے کیلئے صرف دینی باتیں کرنا کافی نہیں ہو گا بلکہ ان پر عمل بھی کر کے دکھانا ہو گا۔ یہ وہ کٹھن مگر امیدوں بھرا راستہ ہے جو آسانی کی طرف جاتا ہے اور سارہ بیک ویل کی خوبصورت کتاب "Humanly Possible" جیسے خوبصورت نام کی طرح سب کچھ ممکن بنا سکتا ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ ادارے ضرور بیچیں کہ خساروں کے ڈھیر لگ گئے لیکن بحیثیت قوم اپنے اوپر چھائی نالائقیوں کی دھند کو اچھی طرح صاف کرلیں۔ سوچیئے! جو یہ ادارے خریدنے میں دلچسپی لے رہے ہیں وہ بھی تو یہ سوچ کر ہی آ رہے ہیں کہ ان خسارہ زدہ اداروں کو منافع بخش بنا لیں گے۔ آخر ہم ایسا کیوں نہیں کر سکے۔ اداروں کی نجکاری کی ضرورت سے انکار نہیں لیکن اپنے اوپر چھائی نالائقیوں اور کوتاہیوں کی دھند کی صفائی اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہو چکی ہے۔ ایسا نہ کیا تو خدانخواستہ کچھ عرصہ بعد پھر بھکاریوں کی قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا اور بیچنے کو بھی کچھ نہیں ہوگا۔ ابھی تو صورتحال جون ایلیا کے اس شعر والی ہے کہ۔
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
٭…٭…٭