ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اچانک اسلام آباد پہنچے تو دنیا کے کئی دارالحکومتوں میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ ایران نے حال ہی میں اسرائیل کو ڈرون میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا ، غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں ایک عرصے سے قیامت برپا ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے ہزاروں مرد و خواتین اور معصوم بچے شہید ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرنے سے قاصر رہا ہے۔ ساری دنیا مہر بلب ہوکر اسرائیل کی وحشت اور بربریت کا تماشا دیکھتی رہی، اور غزہ کے مسلمان اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے ۔ ان حالات میں ایران نے تمام خطرات سے بے نیاز ہوکر اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کردی ۔ کسی مسلمان ملک کی طرف سے اسرائیل کے خلاف یہ پہلی بڑی کارروائی ہے ۔ ایران کی اس جرأت ِ رندانہ پر داد دی گئی ۔
ایران اسرائیل چپقلش سے خطے میں سخت کشیدگی پیدا ہوگئی۔ایرانی حملے نے مسلمان ممالک کو ایک فیصلہ کن وار کرنے کی راہ دکھائی ہے ،خطے میں ایک تموج ہے ، اور مختلف ممالک اپنی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایرانی صدر کے اس حالیہ دورے نے پاکستان کی بھی آنکھیںکھولی ہیں ، سابق وزیراعظم نواز شریف چین کے نجی دورے پر چلے گئے، یہ دورہ بہرحال اتنا بھی نہیں ہے ، نواز شریف سے چینی قیادت سے قریبی تعلقات قائم ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دورے پر جارہے ہیں، جس کے بعد امکان یہ ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان پاکستان کا دورہ کریں گے ۔ ظاہر ہے کہ یہ نقل و حرکت کوئی معمولی بات نہیں اور اس کے دور رس اثرات بہت جلد سامنے آجائیں گے ۔
پاکستان اور ایران نے سکیورٹی، تجا رت، سائنس و ٹیکنالوجی، ویٹرنری ہیلتھ، ثقافت اور عدالتی امور سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کرتے ہوئے آزاد تجارتی معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے اور مشترکہ اقتصادی منصوبوں، مشترکہ سرحدی منڈیوں کے قیام، اقتصادی فری زونز کے ذریعے اور نئی سرحدوں کو کھول کر اپنی دوطرفہ تجارت کو اگلے پانچ سال میں 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم ہائوس میںمنعقدہ دستخطوں کی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف اور ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی بھی موجود تھے، وزیراعظم اور ایرانی صدر کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے میں دوطرفہ تعلقات اور تعاون پر تبادلۂ خیال کیا گیا جنھوں نے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان، کابینہ کے دیگر ارکان اور اعلیٰ حکام سمیت ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ 22 سے 24 اپریل تک پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔
دونوں ممالک نے مشترکہ سرحد کو ’امن کی سرحد‘سے ’خوشحالی کی سرحد‘میں تبدیل کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے توانائی کے شعبے میں تعاون کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ ایرانی صدرکے دورے کے اختتام پر دفتر خارجہ کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ فریقین نے ایک طویل مدتی پائیدار اقتصادی شراکت داری اور باہمی تعاون پر مبنی علاقائی اقتصادی اور روابط کے ماڈل خاص طور پر ایران کے سیستان اور پاکستان کے بلوچستان صوبوں میں سماجی و اقتصادی ترقی کی ضرورت پر زور دیا۔ فریقین نے پاکستان ایران دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ باہمی تشویش کے علاقائی اور عالمی امور پر تبادلۂ خیال کیا اور متعدد معاہدوں پر دستخط کیے۔ پاکستان اور ایران نے علمی، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور تاریخی مذہبی مقامات کی سیاحت کو فروغ دے کر دوطرفہ برادرانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی، منشیات اور انسانی سمگلنگ، یرغمالی کارروائیوں ، منی لانڈرنگ اور اغوا جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے سیاسی، فوجی اور سکیورٹی حکام کے درمیان باقاعدہ تعاون اور تبادلۂ خیال کی اہمیت کا اعادہ کیا۔
فریقین نے آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) کو تیزی سے حتمی شکل دینے کے لیے سالانہ دو طرفہ سیاسی مشاورت (بی پی سی) اور جوائنٹ بزنس ٹریڈ کمیٹی (جے بی ٹی سی) کے اگلے اجلاسوں کے ساتھ ساتھ مشترکہ اقتصادی کمیشن (جے ای سی) کے مذاکرات کے 22 ویں دور کو جلد منعقد کرنے ، اقتصادی تعاون کو تیز کرنے کے لیے اقتصادی اور تکنیکی ماہرین ،دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس کے وفود کے باقاعدہ تبادلے کی سہولت فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ ٹی آئی آر کے تحت ریمدان بارڈر پوائنٹ کو بین الاقوامی سرحدی کراسنگ پوائنٹ قرار دینے اور بقیہ دو بارڈر ز پر مارکیٹس کھولنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ پاکستان اور ایران نے دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے خطرات سے پاک ایک پرامن، متحد اور خود مختار ریاست کے طور پر افغانستان کی ترقی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں فریقوں نے افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے وجود سے علاقائی اور عالمی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہونے کا ذکر کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی اور سلامتی پر تعاون بڑھانے اور دہشت گردی کے خلاف متحدہ محاذ تیار کرنے کے لیے اپنی آمادگی کا اعادہ کیا۔
صدر رئیسی نے صدر مملکت آصف علی زرداری، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق سے بھی ملاقات کی۔ فریقین نے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی اور ایران اور پاکستان کے درمیان مجرموں اور ملزمان کی حوالگی کے معاہدے پراتفاق رائے کیا جو دونوں ممالک کی طرف سے 1960ء میں منظور کیا گیا تھا جبکہ مجرموں کی منتقلی کے معاہدے کی دونوں ممالک نے 2016ء میں منظوری دی تھی۔ صدر رئیسی نے لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دیتے ہوئے علامہ محمد اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا۔ کراچی میں انھوں نے مزار قائد پر پھولوں کی چادر چڑھانے کی تقریب میں شرکت کی۔ صدر رئیسی نے پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کو ایران کے سرکاری دوروں کی دعوت بھی دی۔دونوں ممالک میں فلموں کے تبادلے اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ وقت آ گیا ہے کہ ایران، پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے، خوشحالی اور ترقی میں تبدیل کریں، اقوام متحدہ اور اقوام عالم کو غزہ میں انسانیت سوز مظالم کے خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، پاکستان اور ایران نے ہمیشہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ ایران کے پاکستان کے ساتھ تعلقات نئے نہیں، 1947ء میں ایران پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں سرفہرست تھا۔ آج موقع آگیا ہے کہ اس ہمسائیگی اور اپنی دوستی کو ترقی و خوشحالی کے سمندر میں بدل دیں۔