حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بہادر، سخی ، خوش اخلاق اور قریش کے دلاور نوجوان اور قریش میں انتہائی بلندمقام کے مالک تھے ۔ آپ ؓ حضور نبی کریم ﷺ کے چچا تھے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے چچا سیدنا امیر حمزہ ؓ سے بہت زیادہ انس و محبت تھی ۔ اور آپ ؓ بھی حضور سرور کائنات ﷺ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب آپ ؓ کو پتا چلا کہ ابو جہل آپ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتا ہے تو آپؓ نے حرم کعبہ میں اس کے سر میں اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر کھل گیا ۔ حضرت امیر حمزہ ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے گزارش کی اے بھتیجے تو کھل کر دین اسلام کی تبلیغ کر ۔اللہ کی قسم یہ مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دیں تو میں تب بھی اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا ۔
آپؓ کے اسلام لانے سے رسول کریم ﷺ کو بہت زیادہ قوت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ ﷺ کو تکلیف پہنچانے سے کچھ حد تک رک گئے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے لیے تھا جب آپ ﷺ نے انہیں ۲ ہجری میں قوم جھینہ کے علاقے میں سیف البحر کی طرف ایک دستے کے ساتھ بھیجا تھا ۔
سید الشہدا ء حضرت سیدنا امیر حمزہ ؓ جنگ بدر میں شریک ہوئے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس میں بڑی جانبازی کا مظاہرہ کیا ۔ غزوہ بد ر میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کفار کے دوبڑے سرداروں کو قتل کیا ۔ایک کا نام عتبہ اور دوسرے کا نام طعیمہ بن عدی تھا ۔ آپ ؓ نے ان دونوں کافروں کو ایک ہی وار میں واصل جہنم کر دیا تھا ۔ جنگ بدر میں آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری دیکھ آپ ﷺ نے فرمایا: حمزہ خدا کا بھی شیر ہے اور اس کے رسول ﷺ کا بھی شیر ہے ۔
طعیمہ بن عدی کا ایک بھتیجا جبیر بن مطعم تھا اس نے اپنے چچا کا بدلہ لینے کے لیے اپنے غلام وحشی کو لالچ دی اور کہاکہ اگر تو میرے چچا کا بدلہ نبی ﷺ کے چچا سے لے گا تو میں تجھے اپنی غلامی سے آزاد کر دو ں گا اور بہت سارا انعام بھی دوں گا ۔ عتبہ کی بیٹی ھندہ نے وحشی سے کہا کہ تو اگر سیدنا امیر حمزہؓ سے میرے باپ کا بدلہ لے گا تو میں تجھے آزادبھی کروائوں گی اور بہت سارا سونا اور چاندی اور مال و متاع دوں گی ۔اور سیدنا امیر حمزہ ؓ کا کلیجہ نکال کر لانا بھی تیرا کام ہے میں نے قسم کھائی ہے کہ میں ان کا کلیجہ چبائوں گی ۔