والدہ اور بیٹیوں کی رضامندی سے شادی کا فیصلہ کیا

معروف اداکارہ "مدیحہ رضوی"جو کہ ماضی کی سپر ہٹ اداکارہ دیبا بیگم کی بیٹی ہیں،فن کی دنیا میںموضوع کے انتخاب کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور معیاری کام کرنے کا ترجیح دیتی ہیں۔ وہ ہر کام سوچ سمجھ کر کرنے پر یقین رکھتی ہیں، حال ہی میں انہوں نے اپنی دوسری شادی کی تصاویر اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر شئیر کیں، جیسے ہی انہوں نے تصاویر شئیر کیں تو انہیں مبارکباد ملنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ان کے شوہر کون ہیں اس حوالے سے سوشل میڈیا صارفین نے مختلف باتیں لکھیں۔ مدیحہ رضوی کے شوہر کون ہیں، اداکارہ کے لئے یہ فیصلہ لینا کتنا مشکل یا آسان تھا اور وہ ٹی وی پر کم کم کیوں نظر آتی ہیں۔ یہ سب جاننے کے لئے نوائے وقت نے ان سے خصوصی گفتگو کی جو کہ نذر قارئین ہیں۔ 
سوال: دوسری شادی کا فیصلہ کرنا آپ کے لئے کتنا مشکل یا آسان تھا؟
مدیحہ رضوی: دوسری شادی کرنے کا فیصلہ بہت مشکل تھا یہ بالکل بھی آسان نہیں تھا۔ جب انسان حلال کام کررہا ہوتا ہے اور وہ کام کررہا ہوتا ہے جس میں خدا کی رضامندی شامل ہوتی ہے تو رب کریم کی ذات آپ کی خود مدد کرتی ہے۔میں نے پہلی شادی میں بھی کوئی کوشش نہیں کی تھی دوسری میں بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ مجھے پہلے لگا کہ پتہ نہیں کیا ہو گا پھر میں نے سوچا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
سوال:جن سے شادی کی ان کو پہلے سے جانتی ہیں؟  
مدیحہ رضوی:جی میں ان کو بالکل جانتی ہوں، دراصل جنید میرے فرسٹ کزن ہیں میرے ماموں کے بیٹے ہیں۔ بچپن سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ  رہے ہیں ایک دوسرے کو جانتے ہیں، پہلی شادی کی ناکامی کے بعد میں نے سوچاتو نہیں تھا کہ شادی کروں گی لیکن میرے کزن نے مجھے پرپوز کیا اور میں نے ان سے سوچنے کیلئے وقت لیا، مجھے چیزیں صحیح سمت میں ہی جاتی دکھائی دیں تو میں نے ہاں کر دی۔ 
سوال: آپ کی دو بیٹیاں ہیں، شادی کے لئے ان کو اعتماد میں لیا؟ 
مدیحہ رضوی: میری دو بیٹیاں ہیں ایک اسی سال نو سال کی ہو گی ایک دس سال کی ہوگی لہذا میری بچیاں اس عمر کو ہیں کہ وہ معاملات کو سمجھ سکتی ہیں۔ وہ جنید کے ساتھ کافی پیار کرتی ہیں وہ بھی بچپن سے اسکو دیکھتی آرہی تھیں لہذا ان تک جب یہ بات پہنچی تو انہوں نے فورا رضا مندی دی بلکہ وہ چاہتی تھیں کہ یہ شادی ہوجائے۔ 
سوال: آپ کی والدہ دیبا بیگم کی اس فیصلے میں کتنی سپورٹ تھی؟ 
مدیحہ رضوی: مائیں سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں، اور ان کے لئے بیٹیوں کا دکھ بھی ایک جیسا ہوتا ہے، میری والدہ میرے ساتھ رہتی ہیں، میری بچیوں سے اور مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں، ان کو میری پہلی شادی کی ناکامی کے بعد میرے لئے بہت فکر مند تھیں کہا کرتی تھیں کہ میری زندگی میں ہی تم اپنی زندگی میں سیٹل ہوجائو۔ جنید چونکہ ان کے بھائی کا بیٹا تھا، لہذا ان کا ووٹ پہلے ہی ان کی طرف تھا۔ بنیادی طور پر میری اور جنید کی شادی کا فیصلہ میری والدہ کا ہی تھا۔ وہ میری شادی پر بہت خوش ہیں۔  
سوال: رشتوں میں خرابی کہاں آتی ہے؟ 
مدیحہ رضوی: کسی بھی رشتے میں دو لوگ چل پاتے ہیں یا نہیں چل پاتے بیچ میں کچھ نہیں ہوتا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جہاں آپ کو لگے کہ آپ اپنے پارٹنر کے ساتھ خوش نہیں ہیں تو آپ کو علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے کیونکہ اس سے آپ کے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں، لہذا جہاں اس رشتے میں لگے کہ ساتھ نہیں رہا جا سکتا وہاں فیصلہ لیکر اپنی جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔اس سے آگے کی زندگی کے معاملات آسان ہوجاتے ہیں ورنہ زندگی اور رشتے چلانا  توبہت مشکل ہوتا ہے۔ 
سوال: کیا عورتوں کے لئے ایسا فیصلہ لینا آسان ہوتا ہے؟ کیونکہ ہماری سوسائٹی ایسے فیصلوں کو سپورٹ نہیں کرتی۔ 
مدیحہ رضوی: بالکل ہماری سوسائٹی عورتوں کے خصوصی طور پر اس قسم کے فیصلوں کو سپورٹ نہیں کرتی، لیکن اپنی اور اپنے بچوں کی بہتری اور سکون کے لئے اگر ایسا فیصلہ لینا ضروری ہو تو ضرور لینا چاہیے ورنہ ایک ساتھ کئی زندگیاں ڈسٹرب چل رہی ہوتی ہیں۔ میں خواتین سے یہ کہوں گی کہ آپ تعلیم ضرور حاصل کریں اور اپنے پائوں پر کھڑی ہوں اگر کل کو زندگی میں کوئی مشکل وقت آئے تو اس سے نمٹا جا سکے۔ عورت اگر خود مختار ہو تو اسکے لئے بہت سارے معاملات آسان ہوجاتے ہیں۔ 
سوال: آج کل سوشل میڈیا ایک تیکھی تلوار ہے، جب آپ سوشل میڈیا پر اپنی شادی کی تصاویر شئیر کر رہی تھیں تو کسی قسم کی گھبراہٹ کا شکار تھیں؟ 
مدیحہ رضوی: مجھے بالکل بھی گھبراہٹ نہیں تھی، میں نے کوئی گناہ نہیں کیا شادی کی ہے حلال کام کیا ہے۔ مجھے سوشل میڈیا سے بہت زیادہ رغبت نہیں ہے۔ میں نے شادی کرتے ہی دوسرے دن سوشل میڈیا پر تصاویر شئیر نہیں کیں، میری شادی پہلے ہو چکی تھی، مجھے ایسا لگا کہ انائوسمنٹ کرکے اس معاملے کو بھی ختم کرنا چاہیے، کہ شادی ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کو میں بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ یہاں پر ہونے والی کنٹرورسیز دو دن رہتی ہیں تیسرے دن ختم ہوجاتی ہیں لہذا ٹینشن نہیں لینی چاہیے کہ کوئی کیا کہے گا۔ یہ کوئی کیا کہے گا والی سوچ ہی تو بہت سارے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ 
 سوال: آج کل آرٹسٹ پہلے اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر معلومات شئیر کرتے ہیں کوئی سوال کرے تو پھر کہتے ہیں ہماری ذاتی زندگی ہے اس حوالے سے کیا کہیں گی؟ 
مدیحہ رضوی: پہلی بات تو یہ ہے کہ فنکار یا کوئی بھی سلیبرٹی اگر اپنے پیج پر کوئی انفرمیشن شئیر کرتی ہے تو وہاں اس کے رشتہ دار دوست بھی ہوتے ہیں، وہ کوئی خاص پبلک کے لئے تو کر نہیں رہی ہوتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی انفرمیشن شئیر کی ہے تو اسکی مرضی ہے،کسی کو سوال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اب تو سلیبرٹیز کے علاوہ بھی اگر عام لوگوں کو دیکھیں تو وہ بھی اپنی انفرمیشن شئیر کررہے ہوتے ہیں۔تو پھر صرف اداکاروں کو ہی تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے میری سمجھ سے بالکل باہر ہے۔ 
سوال: آپ ٹی وی پر کم کم کیوں دکھائی دیتی ہیں ؟ 
مدیحہ رضوی: میں وہ کام کرتی ہوں جس سے مجھے تسلی ہو، جس سے میں مطمئن ہوں۔ مجھے کوئی سالڈ کردار ملے تو کرتی ہوں ورنہ گھر بیٹھی رہتی ہوں۔ میں ڈمی کردار نہیں کر سکتی، یہاں تو اب کردار ایسے لکھے جاتے ہیں کہ بھابھی، بہن، نند وغیرہ بس ہیرو ہیروئین کی محبت کو پرموٹ کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کرداروں کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی نہ ہی ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ تو میں ایسا نہیں کر سکتی۔ میں نے ڈرامہ سیریل محبت گمشدہ میری میں ایک بیس سال کی لڑکی کی والدہ کا کردار کیا وہ کردار بہت سالڈ تھا مجھے بہت مزہ آیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج کل ڈرامے دیکھ کر آخری قسط کے بعد لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کیا سٹوری تھی سمجھ ہی نہیں آئی۔ یا لوگ اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں کہ فلاں ڈرامہ دیکھ کر ہم نے کیا سیکھا۔ تو کام وہی کرنا چاہتی ہوں جسکا کوئی مقصد ہو، اس لئے کم کم نظر آتی ہوں۔

ای پیپر دی نیشن