یکم مئی : محنت کشوں کا عالمی دن اور اس کے تقاضے

Apr 30, 2024

شمس الرحمن سواتی

ہمارے حکمران یکم مئی کو یوم مزدورمنا کر اپنی جملہ ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ کیا مزدوروں کا صرف عالمی دن منا کر ریاست کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے ؟جی ہاں یہاں عملاً تو ایسا ہی ہے۔صورتحال یہ ہے کہ مزدوروں پر زندگی کا دائرہ تنگ کردیا گیا اور کوئی پرسان حال نہیں ہے آئین اور قانون میں دئیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے بھی مزدور محروم ہیں لیبراور سماجی بہبودکے قوانین پہلے ہی  ناکافی ہیں یہ تمام مزدورمسائل کا احاطہ ہی نہیں کرتیلیکن  ان پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا ٹریڈ یونینز زوال کا شکار ہے اسکی مسلسل حوصلہ  شکنی کی جارہی ہے اور اس میں نام نہاد مزدور راہنماؤں کا بھی حصہ ہے ۔ساڑھے سات کروڑ لیبر فورس میں سے پونے چھ کروڑ دیہاڑی دار مزدور تو یوم مزدور کے موقع پر بھی چھٹی سے محروم رہتے ہیں۔ لیبر قوانین ،سوشل سکیورٹی ،EOBI اور ورکرز ویلفیئر فنڈ کا نفاذ پچیس (25) سے پینتیس (35) لاکھ لیبر پر ہے اور وہ بھی مکمل نہیں ہے اس تعداد کو بھی کرپشن کیوجہ سے ٹریڈ یونین کی پاداش میں دہشت گردی کے مقدمات ،پولیس گردی کا سامنا ہوتا ہے سوشل سیکورٹی ،EOBI, ورکرز ویلفیئر فنڈ کی مکمل مراعات نہیں ملتیں ان اداروں کے اہلکار ایک مافیا کی طرح مزدوروں کا حق ہڑپ کررہے ہیں کم ازکم اجرت موجودہ کمرتوڑ ہی نہیں گردن توڑ مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہے لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا مستقل ملازمتیں نہیں دی جاتیں .وفاق اور صوبوں میں لیبر کی وزارتیں اور متعلق حکومتی اداروں کے اہلکار ظالموں کا ہتھیار ہیں جس سے مزدوروں کا معاشی قتل کیا جاتا ہے جبکہ ان اداروں کا اصل کام مزدوروں کیحقوق کی حفاظت کرنا ہیاور لیبر قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے اور یہی حال  لیبرکورٹس کا ہے  جہاں مالکان کی شنوائی اور مزدور کی ٹھکائی ہوتی ہے اسی مقصد کیلئے ریٹائرڈ اور سفارشی ججوں کو تعینات کیا جاتا ہے کہ مالکان کے ظلم کو جواز بخشا جاسکے ۔مزدوروں کے ساڑھے چار کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں خاکم بدھن یہ ہے پاکستان کا بھیانک مستقبل ہے سرکاری ملازمین کو پنشن گریجویٹی سے  محروم سور بوڑھے پنشروں کو اذیت دینا یہ ملک کی معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کرنے کا ثمر ہے 
ایک زمانہ تھا کبھی سہ فریقی لیبر کانفرنس ہوا کرتی تھی اب اسے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا ہے کہ لوگ اس اصطلاح کو ہی بھول گئے ہیں۔ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے ترقی کرنی ہے تواپنی زراعت  جس پر ملک پچاس فیصد آبادی کا انحصارپر توجہ دینا ہوگی اور صنعت کو ترقی دیناہوگا جس کے بغیر آگے بڑھنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا  اس کے لیئے سرمایہ دارانہ ،جاگیردارانہ زہنیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے اس کو دفنائے بغیر ترقی نہیں کی جاسکتی ترقی کا یہ تصور درست نہیں ہے کہ ایک طرف ساری دولت سمیٹ محلات اعلیٰ تعلیم اور عشرت کا سامان کیاجائے اور دوسری طرف جھونپڑے ہوں  غربت اوربھوک ناچ رہی ہو پھولوں سے خوبصورت اور معصوم بچے گندگی کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرتے ہوں   اس کو بدلنا ہوگا مزدوروں کے حقوق اور فلاح وبہبود کو یقینی بنانا ہوگا اس کیلئییوم مزدور کے اس موقع پر فی الفور ایک سہ فریقی (بلکہ اسٹیک ہولڈرز) لیبر کانفرنس منعقد کرکے لیبر قوانین کی بہتری ،مکمل سماجی بہبود کے اجراء  اور اس کے مکمل اور موثر نفاذ کیلئے لائحہ عمل اور ایک ایکشن پلان بناکر عمل درآمد کرنا ہوگا تاکہ مزدوروں کیلئے ایک باوقار روزگار کے مواقع پیدا ہوں کم ازکم اجرت اتنی کہ ضرویات زندگی بھی میسر ہوں اور تعمیر وترقی کیلئے صحت مند مزدور بھی سب کیلیئیسماجی بہبود کا تحفظ بھی ہو بچے تعلیم اور علاج سے محروم نہ ہوں اور اپنی چھت میسر ہو ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے اصولوں پر عمل تاکہ کام کی جگہ کا ماحول حفاظتی آلات کی فراہمی سے زندگی اور صحت کی حفاظت یقینی بنائی جاسکیاور مزدور اور مالک کے درمیان بھائی بندی کا رشتہ مستحکم ہو کہ جس سے ترقی اور ویلفیئر کا امتزاج پیدا ہو اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے تصورات کو درست کریں ترقی اثاثے بیچنے کانہیں اثاثے بنانے کا نام ہے حکمرانوں نے ماضی میں سینکڑوں اداروں کو فروخت کیا اور اعلان کیا تھا کہ اس سے ہم ملک کا قرضہ اتاریں گے یہ صنعتی ترقی کا پیش خیمہ ہے اور اس سے بے روزگاری ختم ہوگی  بدقسمتی سے ملک مزید ناقابل برداشت قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا بے روز گاری اور غربت وافلاس نے ڈیرے ڈال دیئے البتہ ترقی معکوس کا سفر جاری ہے اور اب قومی اداروں کے ساتھ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی نجکاری بھی کی جا رہی ہے اس سے جہالت اور بیماری میں ہی اضافہ ہوگا یہ تو صومالیہ اور ایتھوپیا کی "ترقی کا ماڈل ہے"جبکہ ہمارے پاکستانی ماڈل پر جسے ہم چھوڑ دیا کوریا اور دوسرے کچھ ممالک نے ترقی کی ہے

مزیدخبریں