سپریم کورٹ ،اسلام آبادہائیکورٹ کے6ججزکےخط پرازخودنوٹس کی سماعت

سپریم کورٹ میں اسلام آبادہائیکورٹ کے6ججزکےخط پرازخودنوٹس  کی سماعت شروع۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کا عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف لکھے خط سے متعلق ازخودنوٹس کیس پرچیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت شروع ۔
 چھ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی چھ رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے،عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں ذاتی گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے،گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2 ججز موجود نہیں تھے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاکہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے،عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں ذاتی گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے،گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2 ججز موجود نہیں تھے۔وضاحت کرنا چاہتا ہوں کے 184 تین کے تحت کیس کیسے لگایا گیا،کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا ،دستیاب ججز کیس سنیں گے،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس میں بیٹھنے سے معذرت کی اور وجوہات بھی دیں،ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے۔
چیف جسٹس نےریمارکس دئیے لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے ان پر ہم میں سے بھی لوگوں نے دباو ڈالا، میں اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں،چیف جسٹس بننے کے بعد فل کورٹ بنائی،پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے، کیاآپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات دیکھی ہے؟ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ 
اٹارنی جنرل نےکہاہائی کورٹ کی سفارشات ابھی نہیں دیکھی۔
 اب اس معاملے کو کیسے آگے بڑھاے، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ 

جسٹس اطہر من اللہ  نےکہااٹارنی جنرل یہ سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔

 اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔

 چیف جسٹس نےکہا ہم نے ہائی کورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاکیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟
اٹارنی جنرل کہاجی ہاں بظاہر متفقہ نظر آرہی ہیں۔
 اس کا مطلب ہے کسی جج نے اختلاف نہیں کیا،جسٹس اطہر من اللہ کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ    
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیےمیں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، لوئر جوڈیشری کے بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں کیا یہ مداخلت نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نےریمارکس دئیےلاہور ہائیکورٹ کی گزارشات سے میں سمجھاہوں کہ مداخلت ایک کھلا راز ہے اور اب اس کا حل ہونا چاہیے ۔

  چیف جسٹس نےریمارکس دئیے کہ میرے خیال سے اندر سے بھی مداخلت ہوتی ہے،جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، جب ایجنسیوں پر مشتمل جے آئی ٹی بناتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، میں نے پہلے دن واضح کیا تھا کہ کوئی مداخلت نہیں ہو گی اور میرے دور میں کوئی شکایت نہیں، یہ شکایتیں پہلے کے دور کی ہیں،میں بتا سکتا ہوں کہ کس طرح سے اس عدالت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا گیا،عدلیہ کی آزادی کیلئے اسکا بااخیتار ہونا بھی ضروری ہے ،کیا ایک چیف جسٹس کسی جج کو کہہ سکتا ہے کہ کیس اس طریقے سے چلاے ، اگر عدالت آزاد ہو تومکران کا بھی سول جج اتنا بااخیار ہو جتنا چیف جسٹس ہے، میری نظر میں مانیٹرنگ ججز بھی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ہے، عدلیہ میں بھی خود احتسابی کے نظام پر عملدرآمد کرنا ہوگا ،پہلے دن سے واضح کرچکا ہو کہ بطور جج کسی قسم کی مداخلت اور دباو برداشت نہیں کروں گا۔

چیف جسٹس نےکہایہ سارا معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نےکہااس کیس میں ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ معاملے کو حل کریں، ہمیں مداخلت کے سامنے ایک فائر وال کھڑا کرنی ہو گی، ہمیں بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا،ہمیں طے کرنا ہو گا کہ اگر کوئی مداخلت کرتا ہے تو اس کے خلاف کیسے ایکشن لینا چاہئے۔
سپریم کورٹ کا ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز پبلک کرنے کا حکم 
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیے ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟ 
اٹارنی جنرل نےکہاہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے۔
 جسٹس منصور علی شاہ نےکہا جسٹس اعجاز اسحاق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں۔
  چیف جسٹس نےکہا کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟
اٹارنی جنرل نےکہاسب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نےکہا تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے،کوئی رسپانس نہیں ہو گا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہئے جو ہائیکورٹ ججز اٹھا رہے ہیں، آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔
چیف جسٹس نےکہا ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی چیزوں پر نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہااٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کیلئے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں،ججز جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت ایک مسلسل جاری معاملہ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نےریمارکس دئیےکہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشا کی گئیں،  جسٹس بابر ستار کے معاملے کی طرف اشارہ ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نےکہاسپریم کورٹ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟ دو بینچ کے ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا،ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے،فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہو گا۔
 جسٹس منصور علی شاہ نےکہا آج اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہاہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں،جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔
 جسٹس مسرت حلالی نےکہایہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب خود کیوں نہیں کرتے سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نےکہامسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے حل کریں، ہائیکورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے،ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے جو تجاویز لکھی ہیں بڑی جرات دکھائی ہے، یہ اس مقدمے اور اس سوموٹوکیس کے ثمرات ہیں،
چیف جسٹس نےریمارکس دئیےمیں پانچ سال ایک ماہ بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، مجھے پتہ ہے کہ کتنی مداخلت ہوتی ہے، چیف جسٹس اور زیادہ تر سپریم کورٹ سے مداخلت ہوتی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا میرے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔
  جسٹس مسرت ہلالی نےکہامیں سمجھتی ہوں کہ جو مداخلت کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا اسے جج کی کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں۔ آپ میں اتنی ہمت ہو کہ آپ اسکو فیس کرے۔

جسٹس منصور علی شاہ نےکہایہ کیسی ریاست ہے جہاں فون سننا بھی آسان نہیں، فون سنتے ہوے بھی خوف ہوتا کہ کہی ٹیپ تو نہیں ہو رہا، فون پر بات کرنے کیلئے محفوظ مقام ڈھونڈنا پڑتا ہے،آج تک میرے کسی کام میں کوئی  داخلت نہیں ہوئی ۔

ای پیپر دی نیشن