الطاف کا بیان ۔.....۔ ملکی و بین الاقوامی پس منظرمیں

88ءکے بعد ایم کیو ایم ہر دور میں نہ صرف حکومت بلکہ سسٹم کا بھی حصہ رہی ہے۔ اقتدار کے بل بوتے پر ایم کیو ایم اپنی جڑیں اور بنیادیں مضبوط کرنے میں اس حد تک کامیاب ہو گئی کہ آج قومی اسمبلی میں اس کے 25ارکان، صوبائی اسمبلی میں 51اور سینٹ میں 9موجود ہیں۔ آج وفاق میں اس کے پاس اہم وزارتیں ہیں، سندھ حکومت میں اس کا آدھا حصہ ہے۔ سندھ کے گورنر عشرت العباد پاکستان کے طویل ترین عرصہ تک گورنر رہنے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں ان کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت اور الطاف بھائی ایک لمبے عرصے سے وڈیروں اور فیوڈلز کے خلاف سیاسی بیان دیتے چلے آ رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر بار ہر حکومت میں وہ انہی وڈیروں ،جاگیرداروں اور صنعتکاروں کے ساتھ اقتدار کی بندربانٹ میں برابر کے شریک رہے۔ وہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کو لسانی بنیادوں پر اپنے ساتھ ملا کر طاقت کا توازن تو اپنے حق میں بدلنے میں کامیاب رہے مگر پاکستان کے دیگر تین صوبوں اور کشمیر گلگت و بلتستان کے لوگوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ کراچی اور حیدرآباد شہر پچھلے دو سال سے خصوصاً ٹارگٹ کلنک کی زد میں ہیں۔ موجودہ حکومت کی دو بڑی اتحادی سیاسی جماعتیں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے ہر وقت خون کی ہولی کھیلتی نظر آتی ہیں۔ اے این پی اور ایم کیوایم ایک دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادتوں کو نشانہ بنا کر اور کبھی دونوں جماعتیں مل کر اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو نشانہ بنانے سے بھی باز نہیں آتیں۔ایم کیو ایم کو جو خود بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے لسانی طبقات پر مشتمل ہے اورایک پناہ گزین گروپ کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے کے تحفظات ہیں کہ اے این پی کراچی کے اندر خیبرپختونخواہ سے لاکھوں لوگوں کو کراچی میں لا رہی ہے جن کی آبادکاری سے سندھ کے اربن ایریاز میں سیاسی طاقت کا توازن تبدیل ہونے کے خدشات ہیں۔ حالیہ سیلاب نے جہاں خیبرپختونخواہ کے 80فیصد رقبے کو جزوی طور پر تباہ کر دیا ہے ، بے شمار دیہات اور متعدد شہر بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں، آنے والے دنوں میں یہ سیلاب زدگان حصول روزگار کے لیے یقینا کراچی کاہی رخ کریں گے۔ اسی طرح حالیہ سیلاب سے سندھ کا رورل ایریا بھی پوری طرح تباہی کی زد میں آیا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت کو شک ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت قائم علی شاہ اور ذوالفقار مرزا کی قیادت میں سیلاب متاثرین کو کراچی اور حیدرآباد میں آباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح ایم کیو ایم جلد یا بدیر سندھ کے شہری علاقوں میں اقلیت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم اس حقیقت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے جو اٹل ہے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ اس کی پارٹنرشپ بڑے اچھے طریقے سے چل رہی ہے پھر یکایک اس کو جرنیلوں کو دعوت کی کیا سوجھی اس کے پیچھے ان کی اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خوف ہے۔
الطاف بھائی کے بیان کو اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے گذشتہ دنوں افغانستان کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ غیرمتوقع طور پر بلائی جانے والی علاقائی کانفرنس میں یہ عندیہ دے کر سب کو حیران کر دیا کہ امریکہ 2014ءتک افغانستان سے اپنی اور نیٹو کی افواج کونکال لے گا۔ چونکہ امریکہ کا ویتنام اور کوریا کی جنگوں میں 90فیصد نقصان انخلا کے موقع پر ہوا تھا اس لیے افغانستان میں انخلا سے پہلے وہ خطے کے اندر ایسے اسباب پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جس سے اس علاقے میں موجود حکومتیں اس کی مرضی کی ہوں۔ چونکہ جمہوری حکومتیں کسی نہ کسی طریقے سے عوام میں خبریں رکھتی ہیں اور وہ عوام کو جواب دہ ہوتی ہیں مگر آمرانہ اور فوجی حکومتیں براہِ راست عوام کو جواب دہ نہیں ہوتیں اس طرح برائن ڈی ہنٹ سے ملاقات کے بعد الطاف حسین کے بیان کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس اور سقراطی ذہانت کی ضرورت نہیں۔کچھ سیاسی گوروﺅں اور اپوزیشن قیادت کے خیال میں الطاف بھائی کے بیان کو اگر موجودہ سیاسی تناظر میں دیکھاجائے تو چند روز قبل وزیرداخلہ رحمن ملک اور الطاف بھائی کی ملاقات اور پھر صدر کا حالیہ دورہ لندن میں ہونے والی خفیہ ملاقاتیں، صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کا سیلاب کے دنوں میں ملک میں موجود نہ ہونا، اتحادی جماعتوں کے لیے ایک بہت بڑا سیٹ بیک تھا۔ ہو سکتا ہے دونوں بڑوں نے عوام کی توجہ بہت بڑے ایشو سے ہٹانے کے لیے باہم مل کر یہ بیان تیار کیا ہو جو الطاف بھائی نے داغ دیا۔جس کے مطابق ایک فلم چلنے والی ہے لیکن اس فلم کا ابھی سکرپٹ بھی مکمل نہیں ہوا کہ سیاسی اداکاروں نے اپنے اپنے کردار کا خود ہی تعین کر لیا ہے اور وہ اس کے پروڈیوسر سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ حالات کچھ بھی ہوں لیکن لگ یوں رہا ہے کہ روم جل رہا ہے اور نیرو بنسری بجا رہا ہے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن