”انتخابات۔۔ بھٹو کی برسی کے دِن!“

سندھ کے سابق صوبائی وزیرِ داخلہ منظور وسان نے اسلام آباد میں کہا کہ” فروری 2013ءمیں اسمبلیاں توڑدی جائیں گی اور 4اپریل کو عام انتخابات ہوں گے“۔ منظور وسان اگر سابق کے بجائے ، سندھ کے حاضر سروس وزیرِ داخلہ بھی ہوتے ، تو بھی اُن کا یہ استحقاق نہیں تھا کہ وہ دارالحکومت میں تشریف لا کر ، عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے۔ وسان صاحب کی اِس مداخلتِ بے جا یادخل در معقولات کا کیا مطلب ہے ؟ انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو وزیرِ اعظم اور اپوزیشن کی مشاورت ،کے بعد چیف الیکشن کمشنر ہی کریں گے۔یہ وسان صاحب نے کیا دُر فنطنی چھوڑ دی۔دال میں کالا یہ ہے کہ 4اپریل 1979ءکو پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں پھانسی دی گئی تھی۔ 4اپریل 2013ءکو بھٹو صاحب کی 34ویں برسی ہو گی۔ ممکن ہے کہ کسی بہت ہی سیانے نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو یہ مشورہ دیا ہو کہ اگر بھٹو صاحب کی برسی کے دِن عام انتخابات کرائے جائیں تو اِس سے پہلے انتخابی مہم کے دوران جلسے جلوسوں اور میڈیا پر پی پی پی کے قائدین اور کارکن بھٹو خاندان کے مظلومیت کی داستان اور قُربانیوں کی کہانی بیان کر کے پورے مُلک میں جذباتی ماحول پیدا کر سکتے ہیں اور پاکستان بھر میں ” شہید چیئرمین“ کی یاد میں ووٹروں کی ہمدردیاں بٹوری جا سکتی ہیں اس طرح پی پی پی کا ووٹ بنک بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ 4 اپریل کی تاریخ کا اعلان وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات اور پی پی پی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ سے کیوں نہیں کرایا گیا؟ کیا اِس اعلان کے لئے کسی سندھی کو کراچی سے بُلوانا ضروری تھا؟ وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم بھی توسندھی ہیں اور اسلام آباد میں موجود ہیں،پھر اُن کی خدمات سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی؟
ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے سیاسی وارثوں کا ہمیشہ عوام کے ساتھ جذباتی تعلق رہا ہے۔ پہلے پہل بھٹو صاحب نے خود کو سامراج دُشمن ، بھارت مخالف ، اور بھوکے ننگے لوگوں کے مسیحا کے طور پر پیش کیا اور آزادیِ کشمیر کا چیمپیئن بھی کہلائے ہزار سال جنگ لڑ کر! غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا وعدہ کیا اور نہ لا سکے۔ پی پی پی پر عوام دُشمن لوگوں کو مسلط کر دیا۔ جو اُنہیں پھانسی سے نہ بچا سکے۔ پارٹی کے غریب کارکنوں نے اپنے چیئرمین کی پھانسی پر خود سوزی کی اور کوڑے کھائے۔ یہ ”قائدِ عوام “ہی تھے کہ جنہوں نے پاکستان کے عوام کی پارٹی کو اپنے خاندان کی ملکیت بنا دیا۔ دہلی کی حکمران رضیہ سلطانہ 1236) ءتا 1239ئ) کے خلاف جب بغاوتیں شروع ہوئیں تو بٹھنڈہ کے حاکم ،ملک التونیہ نے رضیہ سلطانہ کو گرفتار کر کے اُس سے شادی کر لی تھی۔ ملک التونیہ کا خیال تھا کہ اِس طرح وہ دہلی کا سلطان بن جائے گا ۔ معزالدّین بہرام شاہ نے رضیہ سلطانہ اور ملک التونیہ کی فوجوں کو شکست دے کر ، دونوںکو قتل کرا دیا ۔ پھروہ خود دہلی کا سلطان بن گیا ۔
آصف زرداری ، ملک التونیہ سے زیادہ خوش قسمت ثابت ہوئے۔ ” دُختر مشرق“ قتل ہو گئیں ،لیکن وہ زندہ و جاوید ہیںاور انہوں نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی اور صدارت بھی ، پھر موصوف نے اعلان کیاکہ ” مسئلہ کشمیر 30 سال کے لئے سرد خانے میں ڈال دیا جائے“ 5سال گزرنے کو ہیں ، باقی 25سال بھی آئندہ آنے والے حُکمران گزار دیں گے۔چند دِن پہلے، قمر الزمان کائرہ نے کہا تھا کہ ” ساری خرابی 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات سے ہوئی ۔ شاید انہیں علم نہیں کہ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں محترم حاکم علی زرداری اور جناب آصف علی زرداری نواب شاہ سے، بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے اور ہار گئے تھے ۔ جناب حاکم علی زرداری 1970ءمیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے ، پھر پارٹی چھوڑ گئے ۔حاکم علی زرداری اور جناب ا ٓصف زرداری نے ” بھٹو“ صاحب کو اُس وقت ” شہید“ کہنا شروع کِیا جب آصف زرداری کی 1987ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی ہو گئی
یوسف رضا گیلانی بھی 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں ملتان سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور انہوں نے پیپلز پارٹی کی مخالف صفوں میں رہ کر اقتدار کے جھُولے جھولے ، لیکن جب 1988ءمیں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تو انہوں نے بھٹو صاحب کو ” شہید“ کہنا شروع کیا ۔ ساڑھے چار سال تک وزیرِ اعظم رہتے ہوئے گیلانی صاحب کا یہی دعویٰ تھا کہ وہ ” شہید بھٹو کے مِشن کی تکمیل کر رہے ہیں اور اب راجہ پرویز اشرف بلحاظ ِ عہدہ اُس مِشن کی تکمیل میں مصروف ہیں، اور بیرسٹر اعتزاز احسن نے پیپلز پارٹی کے ہر وزیراعظم سے صرف ایک سو روپیہ نقد فیس لے کر مقدمہ لڑنے کا عہد کیا ہواہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے امریکہ اور پاک فوج سے مفاہمت کے بعد ، بھٹو صاحب کی ” شہادت“ کو کیش کرایا ۔ محترمہ دوبار وزیراعظم منتخب اور پھربرطرف ہوئیں ۔ عوام کا بھلا نہ ہوا۔ آصف زرداری ،اپنی اہلیہءمحترمہ کی ” شہادت“ کو کیش کرا کے صدرِ پاکستان بن گئے۔ جب بھی بھوکے ننگے اور بے گھر بلکہ در بدر عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ایوانِ صدارت کی طرف دیکھتے ہیں، تو وہاں سے ” شہیدوں“ کے پُر جوش اورمسحور کُن ترانے سنائی دیتے ہیں۔ پاکستان آہستہ آہستہ ایتھوپیا بننے جا رہا ہے ، لیکن پی پی پی کی قیادت ایک بار پھر عوام کے جذبات سے کھیلنے کی تیاریاں کر رہی ہے ۔ 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش میں بھٹو صاحب کی ” شہادت“ کا دِن شوق سے منائیں ، عام انتخابات تو پُر امن ہونے دیں ۔ اگر عوام آپ کی حکومت کی ” کارکردگی “ سے خوش ہوں توآپ پِیرِ تسمہ پا، کی طرح ایک بار پھر اُن کی گردن پر بیٹھ جائیں ورنہ جان چھوڑیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کا بھی کڑا امتحان ہے ۔ محض گالی گلوچ سے کام نہیں چلے گا ۔ عوام کے جذبات بھڑکانے کے بجائے ، مسائل کا حل پیش کریں اور دیانتدار اور مخلص امیدواروں کو انتخابی کو میدان میں اُتار یں ورنہ لوگ یہ دلیل قبول نہیں کریں گے کہ ” ہمیںعوام نے مینڈیٹ دیا ہے، اور ہمیں اپنی مدّت پوری کرنے دیں، پھر بے شک ووٹ نہ دیں“۔ اگر عام انتخابات کے بعد عوام کا بھلا نہ ہوا تو آنے والی حکومت بھی خیر کی توقع نہ رکھّے۔

ای پیپر دی نیشن