چیف جسٹس کی کراچی کے حالات پر تشویش اور وفاقی حکومت کا فوج بلانے سے گریز ........ کراچی بدامنی کا تسلسل جمہوریت کی ناکامی پر منتج ہو سکتا ہے

چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی امن و امان کیس میں ڈائریکٹر جنرل رینجرز کی عدالت میں عدم موجودگی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انہیں فوری طور پر عدالت میں طلب کیا اور باور کرایا کہ یہاں تو تحفظ فراہم کرنیوالے خود محفوظ نہیں‘ پولیس بھی آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتی۔ عدالت نے اڑھائی سال قبل سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کرنے کا حکم دیا تھا‘ اب تک اس عدالتی حکم پر کیوں عملدرآمد نہیں ہوا؟ ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے بعدازاں عدالت میں پیش ہو کر بیان قلمبند کرایا کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں سیاسی ونگز ملوث ہیں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی رہائی کے بعد حالات خراب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں سیاسی جماعتیں فطرانے لے کر مزے لوٹ رہی تھیں‘ اب شورمچا رہی ہیں‘ فاضل عدالت نے اس پر انہیں باور کرایا کہ سیاسی ونگ ختم کرنا انکے ادارے کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ بطور ادارہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے تو اپنی ناکامی قبول کریں۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ معلوم نہیں وہ کونسی طاقتیں ہیں جو پولیس اور رینجرز کو قیام امن سے روکتی ہیں۔ کراچی کے حالات میں وفاقی حکومت کوئی دلچسپی نہیں لے رہی۔ فاضل عدالت نے آئی جی سندھ کو باور کرایا کہ دو سال میں شہر میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا مکمل کنٹرول ہونا چاہیے تھا‘ اگر آج صورتحال قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے قابو میں ہے تو وہ مجھے کھارادر اور چاکیواڑہ میں لے جا کر دکھائیں۔ دوران سماعت چیف سیکرٹری سندھ بھی کراچی امن و امان کے معاملہ میں وفاقی حکومت کے ساتھ اپنی خط و کتابت پر سے عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں‘ کل سے کراچی میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ گرے۔ پہلے مرض کی تشخیص کریں‘ پھر اس کا علاج کریں‘ فاضل عدالت عظمیٰ کے روبرو اس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے اور عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کیلئے طلب کرلیا ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے اڑھائی سال قبل کراچی رجسٹری میں بیٹھ کر کراچی امن و امان کیس کی دو ہفتے تک مسلسل سماعت کی اور اپنے فیصلہ میں امن و امان کی بحالی سے متعلق احکام جاری کرتے ہوئے نہ صرف مرض کی تشخیص بتائی بلکہ اس کا اصل علاج بھی تجویز کیا۔ اس وقت بھی کراچی انسانی مقتل گاہ کا نقشہ پیش کر رہا تھا اور سندھ میں پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم متحدہ اور اے این پی ایک دوسرے کی حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو کراچی کے حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرا رہی تھیں جبکہ اس سے قبل سندھ کے اس وقت کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے سیاسی جماعتوں میں شامل بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی باقاعدہ فہرست بھی جاری کی اور ملبہ ایم کیو ایم متحدہ پر ڈالا۔ سپریم کورٹ نے انکے اس بیان کی روشنی میں انہیں عدالت میں طلب کیا اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کی موجودگی کا سخت نوٹس لیا۔ اگر اس وقت ہی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں اصلاح احوال کے عملی اقدامات اٹھالئے گئے ہوتے تو آج عدالت کو کراچی امن و امان کے معاملہ میں دوبارہ نوٹس نہ لینا پڑتا مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں اور مفادات کے تحت کوئی بھی حکومتی یا اپوزیشن جماعت سندھ بالخصوص کراچی میں جاری آتش و آہن کے کھیل کو روکنے یا اس میں کسی قسم کی مداخلت کرنے میں سنجیدہ نہیں اور ایڈہاک ازم کی بنیاد پر انہوں نے ”ڈنگ ٹپاﺅ“ پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ آج کا دن گزر جائے‘ کل کا دیکھا جائیگا مگر ایسی پالیسیوں سے اتنا بگاڑ پیدا ہوتا ہے کہ ملک اور معاشرے کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ آج کراچی کے حالات پر تمام سٹیک ہولڈرز فیض کے اس شعر کی تصویر بنے نظر آتے ہیں کہ....
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ جو دکھ ہمیں تھے بہت لادوا نہ تھے
آج بھی کراچی کو لاحق مرض کی تشخیص اور اسکے اصل علاج کے بجائے محض زبانی جمع خرچ اور ڈھکوسلوں سے کام لیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ کراچی کی بدامنی اس انتہاءکو پہنچ چکی ہے کہ وہاں روزانہ ایک آدھ درجن بے گناہ انسانوں کی لاشیں گر رہی ہیں۔ کوئی شخص گلی‘ محلے‘ بازاروں اور کسی پبلک مقام تو کجا‘ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں‘ لوگوں کا روزگار اور کاروبار تباہ ہو چکا ہے اور مزید تباہی کا اہتمام ہوتا نظر آرہا ہے جبکہ ملک کے اس تجارتی ہب کی تباہی کے منفی اثرات پورے ملک کی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں اور سابقہ دور ہی کی طرح اب بھی گورننس کہیں نام کو بھی نظر نہیں آرہی۔ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز بھی موجود ہیں اور انکی آڑ میں ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خور‘ لینڈمافیاز اور دیگر بدقماش عناصر بھی کراچی میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں مگن ہیں۔ اگر سندھ حکومت کراچی میں امن و امان کی بحالی میں مخلص اور سنجیدہ ہوتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پولیس اور رینجرز کے ذریعے دہشت گردوں اور بدقماشوں کی سرکوبی نہ ہو پاتی مگر جب حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہی اپنے اپنے مفادات کے تحت ان بدقماش عناصر کی سرپرستی کی جا رہی ہو تو قانون اور امن نافذ کرنیوالی ایجنسیوں کے اقدامات بھی کب مو¿ثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں تو حکومت سندھ کو خود ہی امن و امان کی بحالی کیلئے آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج کی معاونت طلب کرلینی چاہیے تھی مگر بوجوہ اس سے گریز کیا گیا جس پر گزشتہ روز ایم کیو ایم متحدہ نے وزیراعظم نوازشریف کو کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی باضابطہ درخواست پیش کی جس کی نہ صرف پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں کھل کر مخالفت کی بلکہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے بھی گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران باور کرایا کہ کراچی میں فوج بلانا درست نہیں۔ انہوں نے اسکے جواز میں یہ دلیل پیش کی کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی میں فوج بلانا صوبائی حکومت کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہو گی۔ یہ درست ہے کہ آئین کی دفعہ 245 کے تحت متعلقہ صوبائی حکومت ہی امن و امان کی بحالی کیلئے فوج کی معاونت طلب کر سکتی ہے تاہم اگر صوبائی حکومت اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت یہ اقدام اٹھانے پر آمادہ نہ ہو تو پھر کراچی کے شہریوں کو دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے رحم و کرم پر تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ وفاقی حکومت کے پاس گورنر راج کے نفاذ کا آپشن موجود ہے جس کے بعد متعلقہ صوبے کے وفاق کے زیر کنٹرول آنے سے آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج کی معاونت طلب کرنے کا اختیار وفاقی حکومت خود بھی استعمال کر سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم میاں نوازشریف کو اپنے ہی دور حکومت میں 1992ءمیں سندھ میں کئے گئے فوجی اپریشن کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس اقدام سے ہی بہتری کی راہ نکلی تھی اس لئے اب بھی فوج کے ذریعہ ایسے ہی بے لاگ اپریشن سے حالات پر قابو پایا اور کراچی کا امن و امان بحال کیا جا سکتا ہے جبکہ اب تو کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا تقاضہ خود ایم کیو ایم کی جانب سے کیا گیا ہے۔
اگر پولیس اور رینجرز کے ذریعے کراچی میں امن و امان کی بحالی ممکن ہوتی تو اب تک یہ بیل منڈھے چڑھ چکی ہوتی جبکہ کراچی کے حالات تو پہلے سے بھی ابتر ہو چکے ہیں۔ انہیں پولیس اور رینجرز کے ذریعے درست کرنے کی کوشش کی جائیگی تو نہ صرف یہ کوشش بارآور نہیں ہو پائے گی بلکہ انکے اقدامات کی بنیاد پر حکومت مخالف جماعتوں کو حکومت پر انتقامی کارروائیوں کے الزامات عائد کرنے کا موقع بھی مل جائیگا جیسا کہ گزشتہ روز ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میں رینجرز کے چھاپوں کے دوران ہونیوالی گرفتاریوں پر حکومت کو انتقامی کارروائیوں کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ یہ صورتحال کسی سدھار کے بجائے مزید بگاڑ کی عکاسی کررہی ہے اس لئے کرچی کے حالات کے معاملہ میں وفاقی حکومت کو بے نیازی والا رویہ ترک کرکے امن و امان کی بحالی کے اصل تقاضے پورے کرنے چاہئیں اور افواج پاکستان کے ذریعے بے لاگ اپریشن کراکے حالات پر قابو پانا چاہیے‘ ورنہ کراچی کی بدامنی کا تسلسل مجموعی طور پر جمہوریت کی ناکامی کے کھاتے میں چلا جائیگا۔ آئین کے تحت ملک کے ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا کسی مقامی حکومتی انتظامی مشینری کے علاوہ وفاقی حکومت کی بھی بنیادی ذمہ داری ہے جس سے اغماض آئین سے روگردانی کے مترادف سمجھا جائیگا۔

ای پیپر دی نیشن