سعید آسی
کیا یہ سارا ڈرامہ اس الزام کو تقویت پہنچانے کے لئے سٹیج کیا گیا تھا کہ سیاستدانوں میں اپنے معاملات خود طے کرنے اور جمہوریت کو چلائے رکھنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اس صورت حال پر صدمے کا اظہار کیا ہے اور دکھ بھرے لہجے میں باور کرایا ہے کہ آج ہم نے ملک کی آزادی کا خواب کھو دیا ہے۔ کاش مسئلہ فوج سے حل نہ کرایا جاتا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو بھی اسی بات کا دکھ ہے کہ باہم لڑنے والے، سیاستدانوں کے بجائے دوسروں کی صلح کے محتاج ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو کو اس نازک صورت حال میں ’’بی بی ہم شرمندہ ہیں‘‘ کے نعرے نے جگا دیا ہے اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ فوج کی ثالثی کے معاملہ پر وزیراعظم نواز شریف سے دریافت کر کے اپنا مؤقف دینا چاہتے ہیں مگر بات تو ساری ’’امپائر‘‘ کی انگلی کی ہے جس نے اُٹھتے اُٹھتے دو ہفتے لگا دئیے تاکہ اس عرصے کے دوران جمہوریت کے خلاف مچائے گئے اودھم سے زچ ہوتی قوم کو ’’امپائر‘‘ کے کردار کی افادیت کا پورا پورا احساس ہو جائے۔ پھر کیا ہم الزام دے سکتے ہیں کہ سیاستدان معاملات سلجھانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ارے بھائی صاحب! ذرا طرزِ عمل تو ملاحظہ کیجئے، کیا سیاستدانوں نے عمران اور قادری کو بہلا پھسلا کر راہ راست پر لانے کی کوششوں میں کوئی کسر چھوڑی؟ ان کا مارچ اور دھرنا شروع کرنے سے پہلے کا ایجنڈہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے استعفے، اقتدار سے معزولی اور گرفتاری کا تھا جو سیاستدانوں کی آخری کوشش کی شکل میں سراج الحق اور قمرالزمان کائرہ کی عمران خان سے ملاقات تک برقرار رہا۔ حکومت نے سانحہ ماڈل ٹائون والی اپنی کمزوری کے باعث پسپا ہونے میں انتہا کر دی۔ عمران کے چھ میں سے پانچ مطالبات مان لئے۔ قادری کے دس نکاتی ’’ایجنڈے‘‘ میں سے چھ نکات کو من و عن تسلیم کر لیا۔ آصف علی زرداری اور سید خورشید شاہ نے مفاہمت کا ایک ممکنہ قابل عمل فارمولا پیش کر کے، جس میں وزیراعظم کے استعفے کو آخری آپشن کے طور پر شامل کیا گیا تھا، درمیانی راستہ نکلوانے کی کوشش کی، پوری پارلیمنٹ، ملک بھر کی وکلا اور تاجر برادری اور سول سوسائٹی کی تمام چیدہ چیدہ شخصیات آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی رکھوالی کے عزم کا اظہار کرتی نظر آئیں، عمران کی حکومتی حلیف جماعت اسلامی اپنے اس حلیف کو زمین پر اتارنے کی ہر کوشش میں مصروف نظر آئی، سندھ اور پنجاب کے گورنروں نے قادری کا جوش ٹھنڈا کرنے کی اپنی سی تمام کوششیں کر لیں۔ الطاف بھائی نے لندن سے ٹیلی فونک لیکچروں کا سلسلہ برقرار رکھا مگر ان دونوں طوطوں کی رٹی رٹائی زبان پر ایک ہی فقرہ چڑھا رہا، استعفے، بس استعفے۔ تو بھائی سیاستدان کہاں ناکام ہوئے۔ یہ طوطے جو پارلیمنٹ، سیاسی قائدین، وکلا، نمائندگان اور سول سوسائٹی کی معزز شخصیات سمیت کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے اور سسٹم کی بھد اُڑاتے ہوئے اودھم مچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے، عسکری قیادت کے بس ایک پیغام پر ہی ریشہ خطمی ہو گئے اور اپنے اپنے دھرنوں سے چھلانگیں مارتے، جستیں بھرتے جی ایچ کیو جا پہنچے جیسے وہ بس اسی ایک اشارے کے ہی تو منتظر تھے۔ پھر کیا یہ ثابت نہیں ہوا کہ ان طوطوں کا ایجنڈہ انقلاب اور آزادی کے فریب میں الجھا کر اپنے ہمراہ لائے گئے سادہ و معصوم ورکروں کو حقیقی جمہوریت کی صورت میں ریلیف دلوانا نہیں، حکمرانوں کو جیسے تیسے مستعفی کرا کے جمہوریت کو راندۂ درگاہ بنانے کی راہ ہموار کرنے کا تھا جس کے لئے چودھری برادران اور شیخ رشید کو ان کا ’’شامل باجا‘‘ بنایا گیا، اب اگر یہ طوطے حکومت اور سیاستدانوں کے پیش کردہ مفاہمتی فارمولوں سے بھی کم پر سارے معاملات طے کر لیتے ہیں اور ’’امپائر‘‘ کے لئے باہم شیر و شکر ہو جاتے ہیں تو تین ہفتے سے موسمی سختیاں برداشت کرتے، دھرنوں میں ذلیل و خوار ہوتے ان کے سادہ و معصوم کارکنوں کو ان طوطوں کے گریبان پکڑ کر ان کا مواخذہ ضرور کرنا چاہئے کہ انہوں نے جمہوریت کی گاڑی کو پھر ٹریک سے باہر نکلوانے کا ٹھیکہ ان کی قربانیوں کے عوض کیوں لیا تھا، وہ کس اصول کی وکالت کرتے رہے،کس فائدے کے پیچھے پڑے رہے اور کس کے فائدے کی فکر میں لگے رہے اور پھر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آج والے افہام و تفہیم کی نوبت لانے کے لئے امپائر کی انگلی پہلے دن ہی کیوں نہ اُٹھ گئی۔ کیا یہ ساری منصوبہ بندی حکومتی مشینری کو بے بس کر کے مارنے کی تھی، جمہوریت کا تماشہ لگا کہ آرمی چیف سے جمہوری سلطانوں کی ملاقاتوں کا تانتا بندھا رہا جس میں انہیں ہر بار یہی لیکچر ملتا رہا کہ سیاسی معاملات افہام و تفہیم سے خود طے کریں۔ اس دوران یہ ہدایت نامہ بھی برابر جاری ہوتا رہا کہ دھرنوں کو طاقت سے ہٹانے کی ہرگز کوشش نہ کی جائے جبکہ دھرنے والوں کو دما دم مست قلندر اور امپائر کی انگلی اُٹھنے پر آمادگی کی ہلہ شیری ملتی رہی۔ چنانچہ جہاں جمہوریت کا مُردہ خراب ہوا وہیں عدالتی عملداری بھی غیر مؤثر و نامُراد بنا دی گئی اور پھر امیائر کا یکایک ثالثی کا کردار سامنے آیا تو سارے سیاستدان ناکام قرار پائے۔ لاحول ولا قوۃ۔ بھئی! اب قوم کو یہ پوچھنے کا حق تو دے دو کہ اس کے روزمرہ کے معاملات کو اکھاڑ پچھاڑ کر اسے تین ہفتے تک ذہنی طور پر مفلوج کئے رکھنے کی منصوبہ بندی میں کیا حکمت کار فرما تھی۔ اگر ان طوطوں کو اُچھل کود کرنے پر ’’امپائر‘‘ کی جانب سے پہلے دن ہی ییلو کارڈ اور پھر باز نہ آنے کی صورت میں ریڈ کارڈ تھما دیا جاتا تو اسلام آباد کی شاہراہ دستور میدانِ کارزار میں کیوں تبدیل ہوتی۔ اگر سابقہ دور کا لانگ مارچ گوجرانوالہ میں ہی مقاصد کی تکمیل کا باعث بنا لیا گیا تھا تو موجودہ مارچوں سے دھرنوں کی نوبت آنے سے پہلے ہی وہ متعینہ مقاصد حاصل کرنے میں ہرگز دقت نہ ہوتی جو حکمرانوں کی مکمل رسوائی کی صورت میں جمہوریت پر تین ہفتے تک گند اچھلوانے کے بعد امپائر کی انگلی اٹھا کر حاصل کئے جا رہے ہیں کیونکہ طوطوں نے تو امپائر کی انگلی اٹھوانے کا ہی کردار ادا کرنا تھا جو ان کے سٹیج پلے کے پہلے روز ہی تکمیل کے مراحل میں پہنچایا جا سکتا تھا۔ تو کیا جناب، آج ہم یہ پوچھے میں بھی حق بجانب نہیں کہ ملک و قوم کی بربادی کے اس سٹیج پلے کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے۔ کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ ملک میں کوئی دستور و قانون موجود ہے تو اس کی عملداری کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ مگر آئین کے ہوتے ہوئے اس ملک نے سرزمین بے آئین بننا ہے اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں ملک، قوم اور عوام کے مقدر کے فیصلے پارلیمنٹ سے باہر کئے جانے ہیں تو ہمیں مہذب معاشرہ کہلانے کا کیا حق حاصل ہے، کیوں نہ ہم پتھر کے اس زمانے کی جانب واپس لوٹ جائیں جس کا اہتمام ہماری سپاہ کی بہتری کے لئے فکرمند ہمارے آقا امریکہ بہادر نے پہلے ہی کر رکھا ہے۔ ’’اِنا للہ و اِنا اِلیہ راجعون‘‘