پاکستان میں آج کل جمہوریت پر بحث ہورہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے انداز حکومت کو بادشاہت قراردیا جارہا ہے۔ سیاسی رہنما اپنی جماعتوں کے اندر جمہوری کلچر کو فروغ دینے کی بجائے آمرانہ فیصلے کرتے ہیں۔ جماعت کی تنظیموں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اسی تضاد کی وجہ سے پاکستان میں جمہوری نظام جڑ نہیں پکڑ سکا۔ اگر سیاستدان حقیقی معنوں میں جمہوری ہوتے اور حکومت و جماعت کو جمہوری اصولوں کے مطابق چلاتے تو آج جمہوریت کا ماتم نہ ہورہا ہوتا اور اسلام آباد میں دھرنے نہ دئیے جاتے۔ قائداعظم نے انتہائی اہم اور حساس مواقع پر بھی جمہوری اصولوں کی پاسداری کی۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے 2جون1947ءکو ہندوستان کے اہم لیڈروں کا اجلاس بلایا جس میں تقسیم ہند کے منصوبے کی منظوری لی جانی تھی۔ اس اجلاس میں کانگرس کے نہرو، پٹیل، کرپلانی، مسلم لیگ کی جانب سے محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور عبدالرب نشتر شریک ہوئے۔ سکھوں کی نمائندگی بلدیو سنگھ نے کی۔ یہ ماﺅنٹ بیٹن کی زندگی کا اہم لمحہ تھا۔ جب ایسا فیصلہ ہونے والا تھا جس نے نئی تاریخ کو جنم دینا تھا۔ شرکاءمیں تقسیم ہند منصوبے کی کاپیاں تقسیم کی گئیں۔ ماﺅنٹ بیٹن کی خواہش تھی کہ منصوبے پر کم سے کم بحث ہو اور لیڈر منصوبے سے اتفاق کرلیں۔ ماﺅنٹ بیٹن نے لیڈروں سے کہا کہ وہ منصوبے کی دستاویز لی جائیں اور اسی دن شام تک اس کی منظوری ورکنگ کمیٹیوں سے لے لیں۔ کانگرس نے اسی دن ورکنگ کمیٹی سے منظوری لے کر وائسرائے کو آگاہ کردیا۔
ماﺅنٹ بیٹن نے قائداعظم سے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں دریافت کیا۔ قائداعظم نے حقیقی ڈیموکریٹ کی طرح جواب دیا ”میں اس ضمن میں اپنی رائے دے سکتا ہوں۔ مسلم لیگ ایک جمہوری جماعت ہے۔ مسلم لیگ حتمی فیصلے سے پہلے عوام سے رابطہ کریگی۔ ان سے مشاورت کریگی جو مسلم لیگ کے آقا ہیں“۔[وائسرائے ریکارڈ جلد گیارہ صفحہ] ”قائداعظم نے کہا کہ اگر مسلم لیگ جنرل کونسل کے سامنے حتمی فیصلہ رکھ دیا گیا تو سمجھا جائیگا فیصلہ ان پر مسلط کیا جارہا ہے اور اراکین کونسل سے مشاورت نہیں کی جارہی“۔[ایضاََ] قائداعظم نے کہا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر کونسل کا اجلاس بلائیں گے اور کونسل کی منظوری سے حتمی فیصلے کرینگے۔ قائداعظم نے اس توقع کا اظہار کیا کہ کونسل کے اراکین منصوبے سے اتفاق کرینگے۔ ماﺅنٹ بیٹن نے قائداعظم کو دباﺅ میں لانے کیلئے کہا کہ وہ ایک دن بھی انتظار نہیں کرسکتا۔ قائداعظم نے کہا کہ وہ رات تک وائسرائے کو ورکنگ کمیٹی کی رائے سے زبانی آگاہ کردینگے۔ ماﺅنٹ بیٹن نے قائداعظم سے کہا کہ آپ کا رویہ یہ ہے تو آپ پاکستان حاصل کرنے کے امکانات ہی ختم کرلیں گے“۔ قائداعظم نے بڑے اعتماد کے ساتھ جواب دیا ”جو ہونا ہے وہ ہونا چاہیئے“ یعنی جمہوری اصولوں سے انحراف منظور نہیں۔ افسوس ہمارے موجودہ لیڈر غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے آرمی چیف کو ثالث ماننے پر مجبور ہوگئے۔ ماﺅنٹ بیٹن نے اجلاس کے شرکاءکو بتایا کہ وہ 3جون کی شب آل انڈیا ریڈیو پر تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کرینگے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نہرو، قائداعظم اور بلدیو سنگھ بھی آل انڈیا ریڈیو پر خطاب کرینگے۔ وزارت اطلاعات کے انچارج وزیر پٹیل نے کہا کہ سیاسی لیڈر اپنے خطاب کا سکرپٹ وزارت کو پیشگی دیں۔ قائداعظم نے اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو ان کے دل میں ہوگا وہی بات اپنے خطاب میں کہیں گے۔
3 جون 1947ءکی صبح لیڈروں کا دوبارہ اجلاس ہوا جس میں مائنٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ کانگرس اور سکھوں نے تقسیم ہند منصوبہ کی تحریری منظوری دے دی ہے جبکہ قائداعظم نے زبانی یقین دہانی کرائی ہے جس سے وہ مطمئن ہیں۔ قائداعظم خاموش رہے البتہ تائید میں سرہلا دیا۔ اسی روز آل انڈیا ریڈیو پر لیڈروں نے خطاب کیا۔ قائداعظم نے کہا ”اُمید ہے کہ ہندوستان کی تقسیم پر امن طور پر مکمل ہوگی۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ منصوبے کے بعض نکات ہمارے نقطہ نظر کے مطابق نہیں ہیں اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس منصوبے سے مکمل طور پر مطمئن ہیں۔ ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس پلان کو کمپرومائز یا سیٹلمنٹ کے طور پر قبول کریں تاہم مسلم لیگ کونسل اس مسئلہ پر حتمی فیصلہ کریگی“۔ ڈیمو کریٹ ہر حال میں ڈیموکریٹ ہوتا ہے اور وہ کبھی شہنشاہانہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ قائداعظم نے اپنے مختصر خطاب کے آخر میں ”پاکستان زندہ باد“ کہا۔ 9 اور 10 جون 1947ءکو امپرئیل ہوٹل دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا جس میں 425 ارکان شریک ہوئے۔ اس تاریخی اجلاس میں مسلم لیگ نے تقسیم ہند پلان کو منظور کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ قائداعظم نے اراکین کونسل کو حالات سے آگاہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ کھل کر اظہار خیال کریں۔ کئی اراکین نے پلان کی کھل کر مخالفت کی البتہ بحث و تمحیص کے بعد اس پلان کو منظور کرلیا گیا۔
ایک روایت کیمطابق قائداعظم نے اجلاس کے آخر میں اپنے خطاب میں کہا ”میں آپکے فیلڈ مارشل کے طور پر پاکستان کی جنگ کی قیادت کرتا رہا ہوں۔ جنگ جیتی جاچکی ہے۔ میرا کام ختم ہوگیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ فیلڈ مارشل منظر سے ہٹ جائے“۔ کونسل کے تمام اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور نو نو کہنے لگے۔ مسلم لیگ نے ماﺅنٹ بیٹن کو کونسل کے فیصلے سے تحریری طور پر آگاہ کردیا اور اس طرح قائداعظم نے شاندار جمہوری روایت قائم کی۔ قائداعظم نے زندگی بھر آئین، قانون اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کی تھی۔ وہ آخری مرحلے پر جمہوری اصولوں کو کیسے ترک کرسکتے تھے۔ قائداعظم کو کامل یقین تھا کہ پارلیمانی جمہوریت میں آخری اختیار عوام کے پاس ہونا چاہیئے۔ قائداعظم اپنی زندگی کے آخری سانس تک اپنے سیاسی اور جمہوری فلسفہ پر ثابت قدم رہے۔ وہ عوام کے غیر متنازعہ لیڈر تھے۔ عوام نے ان کو مینڈیٹ دے رکھا تھا مگر انہوں نے کبھی عوام کو نظر انداز کرکے عوام کی توہین نہ کی اور ہر اہم سیاسی فیصلہ مسلم لیگ کی ورکنگ کونسل سے مشاورت کے بعد کیا۔ قائداعظم نے 14فروری 1948ءکو سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہمارے خدا نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہماری ریاست کے امور کے فیصلے بحث اور مشاورت کی روشنی میں کیے جائینگے“۔ پاکستان کے موجودہ لیڈر رسمی طور پر قائداعظم کا نام تو لیتے ہیں مگر کبھی ان کے جمہوری فلسفے پر عمل نہیں کرتے۔ وہ اہم پالیسی امور پر بھی اپنی جماعت کی کونسل کے اجلاس نہیں بلاتے اور آمروں کی طرح اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا اور عوام کو آمریت اور جمہوریت کے درمیان فرق نظر نہیں آتا۔ میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں نے موجودہ بحران کے سلسلے میں اپنی جماعتوں کی جنرل کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔ دونوں کا رویہ عملی طور پر غیر جمہوری ہے۔ دونوں جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر جمہوری اصولوں سے انحراف کرتے ہیں۔اگر ہمارے سیاستدان جمہوری کلچر کو پروان چڑھاتے ، آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے تو ان کو بار بار فوج کی جانب نہ دیکھنا پڑتا۔ موجودہ بحران میں آرمی چیف کو ثالث اور ضامن بنانا سیاستدانوں کی کھلی نااہلی ہے۔