جھورا جہاز آج بہت ’’تپہ‘‘ ہُوا تھا چہرے پہ جیسے ہَوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور میں نے دور سے اسے آتے ہوئے دیکھ کر یہ اندازہ لگا لیا کہ آج آتش فشاں پھر پھٹ پڑیگا۔ آفس میں داخل ہوتے ہی بولا یہ ایسے کیوں ہوتا ہے؟ کہ ہم عوام جس کسی سے بھی توقعات وابستہ کرتے ہیں وہی ہمارے خوابوں کو چکنا چور کر دیتا ہے۔ گذشتہ 67 سالوں میں سیاست دان تو کیا رہنمائی کرتے ہمارے ڈکٹیٹر بھی اپنے کاز سے مخلص نہ ملے۔ دھاندلی اور اوورکاسٹک کو ایک طرف رکھ دیں۔ ایک کروڑ بتالیس لاکھ ووٹرز نہ سہی 80 یا نوے لاکھ ووٹرز نے میاں نواز شریف کے ’’شیر‘‘ پر ٹھپہ لگایا تھا۔ میاں نواز شریف نے اچھا بھلا الیکشن 2013ء کا معرکہ جیت لیا ہوا تھا مگر کچھ عاقبت نہ اندیش دوستوں کی مجرمانہ مشاورت سے جیت کے کنویں کے پانی کو چند قطرے حرام کے ڈال کر پراگندہ کر لیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مارچ 1977ء کے بعد کے سے حالات آج جولائی 1977ء سے مختلف نہیں۔ اگر میاں نواز شریف عمران خان کی ڈیمانڈ پر چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کی بجائے ری الیکشن کا اعلان کر دیتے تو ان 4 سیٹوں میں سے دو تو دوبارہ جیت ہی جاتے اور عمران خان کی آواز اسکی اپنی سیاسی سوچ تلے دب جاتی۔ رہا علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا مسئلہ تو وہ ایک دفعہ پہلے بھی انہی شاہراہوں سے انہی اتحادیوں کے لگائے زخم ابھی تک نہیں بھر پائے، لاکھوں لوگوں کو ڈی چوک اکٹھا کرکے بالآخر انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اس وقت کے آرمی چیف پرویز کیانی اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابقہ صدر آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی ایک ہی پچ پر کھیل رہے تھے۔ جب عوام بھی ساتھ ہوں حوصلے بھی جواں ہوں تو منزل کوئی مشکل کام نہیں ہوتا اور جب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے دوبارہ وطن واپس آنے کا پلان بنایا تو نواز حکومت اور اس کو تدبر اور بُردباری سے ہینڈل کر سکتی تھی مگر فطرت میں چونکہ بادشاہت گھوٹ گھوٹ کر بھری ہوئی ہے اور مطلق العنانی کے زعم میں مبتلا میاں صاحب یہ بھول گئے کہ سو سے زائد افراد کو بلاوجہ گولیاں مار کر آج کے اس جدید دور میں کیسے ہضم کر پائیں گے۔ میاں صاحب آج ایک لمحہ ذرا اس فکر اور سوچ کے ساتھ غور کریں کہ آج جو اقتدار کا قالین ان کے پائوں کے نیچے سے کھنچتا چلا جا رہا ہے اس میں قصور وار کون کون سے لوگ ہیں۔ یقیناً میاں صاحب کی حالت اس فقیر کے مصداق ہو گئی کہ ’’تیر کھا کے دیکھا کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی‘‘ میاں صاحب اور انکے خاندان نے یقیناً جمہوریت کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں جبکہ نظریاتی اختلافات ہونے کے باوجود میں بھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر میثاق جمہوریت کے ہراول دستے میں شامل رہا اور پھر میاں صاحب کے 2008ء میں پنجاب میں اقتدار میں آنے کے بعد میرے اوپر متعدد قاتلانہ حملے کروائے گئے اور آج بھی مجھ پر بے بنیاد مقدمات قائم ہیں۔ مجھے یہاں یہ ایک دینی اور دنیاوی مثال یاد آ رہی ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’ڈرو اس شخص کے شر سے کہ جس پہ تم نے کبھی کوئی احسان کیا ہو‘‘ اور مجھے وہ قصہ بھی یاد آ رہا ہے کہ ایک بیٹا اپنی دیہاتی ماں سے کہنے لگا کہ اماں اماں میں پائلٹ بنوں گا۔ اماں نے کہا مگر مجھے کیسے پتہ چلا گا کہ تم جہاز اڑا رہے ہو۔ بیٹے نے جواب دیا۔ اماں جب جہاز اڑتا ہوا اپنے گھر کے اوپر سے گزروں گا تو نیچے بم پھینک دوں گا، سمجھ لینا کہ میں ہی گزرا ہوں۔ این آر او کی کرامات اور 58 ٹو بی کے خاتمے کے بعد موجودہ حکمرانوں کو طیب اردگان جیسی 3چوتھائی اکثریت والی حکومت تو مل گئی مگر میاں برادران کا ڈائجسٹ لیول ترک رہنما جیسا نہیں، جیسا بھی اقتدار ملا اس کو صبر اور مل بانٹ کر کھانے سے وہ زمینی اور آسمانی آفات کا شکار نہ ہوتے جن کے چنگل میں وہ آج پھر پھنس چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میاں صاحبان نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھے بغیر پھر وہی حرکات شروع کر دیں اور خاص طور پر انکے رفقاء سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ آصف، چوہدری نثار، اسحاق ڈار، عابد شیر علی اور خرم دستگیر ہر ایک نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت ہونے کیلئے اس شاخ کو ہی کاٹنا شروع کر دیا جس پر ان کا بسیرا تھا۔ مذکورہ تمام رفقاء خود کو ہیرو ثابت کرنے کیلئے شہد کی مکھیوں کے چھتے کو نہ صرف چھیڑ بیٹھے بلکہ آج پورا چھتہ ان پر گِرا ہوا ہے۔ خاص طور پر پرویز رشید صاحب کے یہ الفاظ کہ آج ہم غلیل والوں کے نہیں دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ اس بات کا مظہر تھا کہ ساتھیوں کے اس نالائق ٹولے میں بڑے بڑے عاقبت نااندیش دوست موجود ہیں۔ دوسری طرف طاہر القادری جنہوں نے ایک عالمگیر اور لافانی سوچ اور فکر کو اپنے طالب علموں تک پہنچایا۔ جو چھوٹے بڑے متعدد ٹیسٹ ماضی میں دے چکے تھے۔ 35 سال کی ریاضت، محنت اور عزم کا آج یہ صلہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعد منہاج القرآن اور عوامی تحریک اس وقت قومی سیاسی جماعت بن چکی ہے کہ جسکے قائد کے ایک اشارے پر لاکھوں لوگ کفن پوش ہو کر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لبیک کہتے ہیں۔ ان ولولہ انگیز جانثاروں کا یہ عالم ہے کہ راولپنڈی، اسلام آباد کے مضافات میں تادمِ تحریر سفید لٹھا ناپید ہو چکا ہے۔
دوسری طرف عمران خان کے متوالے بھی ولولوں سے سرشار ہیں اور وہ رات کو بقۂ نور اور جنگل میں منگل بنا دیتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے 14 شہداء 85 زخمیوں اور 10 اگست کے 9 شہداء اور سینکڑوں زخمیوں کا خون اتنا ارزاں کیسے سمجھ لیا گیا۔ آج اس گلوبل ولیج کے دور میں ایک ناحق جانور مار کر آپ نہیں بچ سکتے۔ رانا ثناء اللہ آج شریف برادران کی کشتی ڈبو کر اب کسی نئی کشتی کی تلاش میں ہیں اور فوج کو شجر ممنوعہ اور امپائر قرار دینے والے آج فوج سے ثالثی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کہ ’’یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے ہمیں‘‘ آج جس وقت یہ خبر ٹی وی سکرینوں پر چلنے لگی کہ میاں صاحب نے فوج سے مدد مانگ لی ہے تو مجھے شدت سے یاد آیا کہ آپ بکری کو شیر کی کھال پہنا کر یا کوّے کو سفید رنگ کر کے وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتے جو فطرت کا تقاضہ ہوتے ہیں اور آج اس مشکل وقت میں جنرل راحیل شریف کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ ملک کے داخلی حالات میں مداخلت کر کے پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ اس نازک اور کڑے وقت میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف انہیں اپنے رفقاء اور جانثاروں سے کئے ہوئے وعدوں کے مطابق آزادی اور انقلاب کا طلوع ہوتا سورج دکھانا ہے اور دوسری طرف وطن عزیز کی سالمیت پر منڈلاتے اندرونی و بیرونی خطرات اس بات کے متقاضی ہیں کہ جوش میں ہوش کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے آج راقم کو بتایا کہ وہ اپنے اتحادویوں اور جانثاروں سمیت 20 کروڑ پاکستانیوں کے فرائض سے غفلت یا پہلوتہی نہیں برتیں گے اور یہ کہ وہ ہر فیصلے کی توسیع عوامی عدالت سے لیتے ہیں اور ان کا مشن صرف اور صرف عاشقان رسولؐ کو منزل مقصود پر پہنچاتا ہے جبکہ میاں برادران نے اپنی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے آج خود بند گلی میں دور تک لے گئے ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس ابھی بہت سے آپشن کھلے ہیں۔ آج حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وقت کے حکمران گلوبٹ کے ساتھ قتل کی ایف آئی آر میں ملزم نامزد ہیں۔ یہ ہوتا ہے قدرت کا انتقام۔