پشاور (ثناء نیوز) طالبان کی قید سے بازیاب کرائے گئے اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اجمل خان کو شمالی وزیرستان سے پشاور میں ان کے گھر پہنچا دیا گیا جہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے 63سالہ پروفیسر اجمل نے بتایا کہ اغوا کاروں نے مجھے گن پوائنٹ پر اغوا کیا اور راستے میں بے ہوشی کے ٹیکے لگاتے رہے جب ہوش آیا تو خود کو پہاڑی علاقے میں پایا۔ اغوا کاروں نے مجھ سے اچھا سلوک کیا، مجھے دل کے امراض کی دوائی دی جاتی اور حالات حاضرہ سے آگاہ رہنے کیلئے ریڈیو فراہم کیا گیا لیکن اغوا سے لے کر بازیابی تک کا تمام وقت ایک ڈرائونے خواب کی طرح تھا اور اب گھر آکر دنیا بدلی بدلی لگ رہی ہے۔ پروفیسر اجمل نے مزید کہا کہ طالبان نے آپس میں لڑائی کے بعد مجھے حکیم اللہ محسود کے حوالے کر دیا گیا، میں نے وہاں 32بچوں کو پڑھایا۔ ان بچوں کو ریاضی اور انگلش کی تعلیم دی۔ واضح رہے کہ پروفیسر اجمل خان اور ان کے ڈرائیور کو 7ستمبر 2010 ء کو طالبان نے اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ گھر سے یونیورسٹی جا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا ہر 8یا 9ماہ بعد میرا میرے خاندان سے رابطہ کروا دیا جاتا تھا۔دریں اثناء اپنی رہائش گاہ پر پروفیسر کالونی اسلامیہ کالج میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا 8ستمبر 2010کو نامعلوم اغواء کاروں نے پروفیسر کالونی سے اغواء کر کے نامعلوم مقام منتقل کر دیا تھا جس کے بعد ان کو تحریک طالبان پاکستان کے حوالے کر دیا تھا اس کے ساتھ زیادہ عرصہ گزارا جو میرے زندگی کے سخت و کٹھن حالات تھے جس کے بارے میں صرف میں اور میرا اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ جب تحریک طالبان پاکستان نے محسود قبائل کے طالبان کے سجنا گروپ کے حوالے کیا تو انہوں نے بڑی عزت کی اور خیال رکھا، دل کا مریض ہونے کی وجہ سے وہ مجھے وقت پر ادویات اور کھانا دیتے تھے۔ مذہبی لحاظ سے ان کو مکمل آزا دی تھی، سال میں دو یا تین مرتبہ قرآن پاک ختم کرتا تھا۔ وائس چانسلر نے اپنے اغواء کاری کے حوالے سے بتایا کہ وہ نہیں جانتا کہ تحریک طالبان نے ان کو کیوں اور کس مقصد کیلئے اغواء کیا تھا۔ شایدگورنمنٹ پر دبائو ڈالنے یا کسی مغویوں کے بازیابی کیلئے ان کو اغواء کیا گیا۔ میں صرف چار ماہ طالبا ن کے کمانڈر حکیم اللہ مسعود کے قبضے میں تھا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ کون سی جگہ تھی، اتنا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھے ایک جگہ پر نہیں رکھتے تھے، ہر دو تین دن بعد وہ جگہ تبدیل کیا کر تے تھے۔ جان سے مارنے کی کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔ وائس چانسلر نے بتایا ان کو کوئی علم نہیں اغواء ہونے والا سوئس جوڑا، چائنا کے شہری، سابق وزیراعظم کے بیٹے اور سلمان تاثیر کا بیٹا ان کے ساتھ قید ہے یا انہوں نے دیکھا ہوا ہو گا۔ سابقہ حکومت عوامی نیشنل پارٹی، موجودہ حکومت پاکستان تحریک انصاف اور پاک آرمی نے ان کی رہائی کیلئے بڑی کوشش کی ہے جن کا بے حد مشکور ہوں۔ ان چار سالوں میں طالبان نے ان کی 10سے12ویڈیو بنائی اور ان کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر شا ئع کی گئی تھی۔ انہوں نے بازیابی کے حوالے سے میڈیا کو بتایا کہ ان کو علم نہیں کہ وہ کس طرح اور کیسے رہا ہوئے۔ اتنا جانتا ہوں کہ کوہاٹ روڈ پر چھوڑ دیا گیا۔ پہلے دن سے ہی اپنے رب سے امید تھی کہ ایک دن ضرور رہا ہو جائونگا۔
پروفیسر اجمل
اغوا کاروں نے اچھا سلوک کیا، 4سال ڈرائونے خواب کی طرح ہیں: پروفیسر اجمل
Aug 30, 2014