جمہوری دور میںہماری سیاست میں ٹھہرا¶ تو کم رہا ہے مگر آج تلاطم اور طغیانی زیادہ ہی ہے۔ اب تخت الٹتے اور تاج اچھلتے نظر آرہے ہیں۔ متحدہ کے بعد پیپلز پارٹی منقار زیر پر ہی نہیں، پھڑ پھڑا بھی رہی ہے۔ ڈاکٹر عاصم بالآخر پکڑے گئے۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ ان کو زرداری صاحب نے پٹرولیم اور قدرتی وسائل کا وزیر اور مشیر بنائے رکھا۔ مرکز سے پیپلز پارٹی فارغ ہوئی تو سندھ میں”فل لوڈڈ“ ہائر ایجوکیشن کے چیئرمین کا عہدہ دیدیا۔ اس کا حال بھی وزارت پٹرولیم کی طرح ”ہر شاخ پہ اُلّوبیٹھاہے“ جیسا ہوناہی تھا۔
آصف زرداری فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کرکے دُبئی سے ہوتے ہوئے لندن میں مخمور فضاﺅں اور ٹھنڈی ہواﺅں کو دامن میں لئے دل نشیں محلات میں جا گزیں ہوگئے۔ڈاکٹر عاصم گردن دبوچے جانے سے دو روز قبل زرداری کو ”پرنام“ کرکے لوٹے تھے۔ تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ ڈاکٹر عاصم، زرداری کو کیااورکتنا دے کر آئے ۔ کرپشن زرداری صاحب اور ساتھیوں کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردوں کی معاونت کا کیس بھی درج ہوا ہے۔قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ان کو پوچھے بغیر کی گئی۔یہ پہلی گرفتاری نہیں ہے۔شاہ صاحب پر ایسا وقت آیا تو شاید رینجر ان سے پوچھ لے گی۔
زرداری صاحب نے ایک بار پھر خود کو سیاست کی غلام گردشوں کا ماہر کھلاڑی ثابت کر دیا۔ اپنے خلاف کارروائی کی قبل ازوقت بھنک پڑ گئی۔ آخری حربے کے طور پر فوج کواینٹ سے اینٹ بجانے کی تڑی لگائی جو کام نہ آئی توپہلے بِدکے پھر دُبکے اورآخر کار کِھسک گئے۔ ان کے سیاہ کے ساتھی ،کرپشن کے ہاتھی حکومت کو جتا رہے ہیں کہ یہ وقت سیاست میں انتشار کا نہیں ایثار اور پیار کا ہے۔ ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ زرداری صاحب پر ہاتھ ڈالا گیا تو جنگ ہو گی۔ خورشید شاہ نے درست فرمایا کہ ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کرکے آصف زرداری کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ڈاکٹر عاصم پرکرپشن اور لوٹ مار کے ساتھ دہشتگردی کا مقدمہ ہے، بات دور تک جائے گی۔ خورشید شاہ کہتے ہیں نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے لئے تیار ہیں۔ متحدہ بھی یہی کہتی ہے حکومت اس کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی کوشش کر بھی رہی ہے۔ متحدہ کا پہلا مطالبہ ہے کہ اس کے قائد کے خطابات نہ روکے جائیں۔ گویا فوج کو گالیاں دیں اور جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں۔ حکومت استعفے واپس لینے کے لئے متحدہ پر زور دے رہی ہے۔ دوسری طرف وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان لندن میں برطانوی وزیر داخلہ تھریسامے اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کم ڈارک سے ملاقاتوں میں الطاف کی تقریروں پر پابندی اور عمران فاروق قتل کیس میں پیشرفت پر بات چیت کررہے ہیں۔ حکومت کی ایسی کارروائیاں بھی متحدہ کو استعفے واپس لینے سے بدمزہ نہیں کر رہیں۔ حکومت ایک طرف استعفے واپس لینے کے لئے متحدہ کودانہ ڈال رہی ہے۔ دوسری طرف مقدمات اور آپریشن کی ”پھاہی“ بھی لگا رکھی ہے۔ مسلم لیگ ن استعفے واپس لینے یا متحدہ کو استعفوں کے چکر میں اس لئے بھی ڈالے رکھنا چاہتی ہے، اگر متحدہ کے استعفے قبول ہوتے ہیں تو اسی روز پی ٹی آئی بھی استعفے دیکربہت بڑا سیاسی بحران کھڑا کردے گی۔ پیپلز پارٹی جس طرح پھنسی ہوئی ہے وہ بھی شاید یہی فیصلہ کرے۔
کراچی میں سوئی سدرن گیس کمپنی کے ڈپٹی ایم ڈی کو بھی حراست میں لیاگیا جبکہ سندھ کے چیف سیکرٹری صدیق میمن نے ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت کرا لی۔ اس سے قبل عدالتیں80 اعلیٰ افسروں کی گرفتاری کے لئے تُرپ اور تریاق ثابت ہوچکی ہیں۔ حفاظتی ضمانتیں کرانے والے اپنے بدعنوان اور کرپٹ ہونے کا خود ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے حلقہ 122اور 254 میں الیکشن لڑنے اور تحریک انصاف کو سبق سکھانے کا اعلان کیا جبکہ سعد رفیق کا حلقہ محفوظ رکھ لیا۔ یہاں شاید ن لیگ کو ”سبق سیکھنے“ کا خدشہ ہے۔ سبق تو چیف الیکشن کمشنر نے سعد رفیق، ایاز صادق اور صدیق بلوچ کی رکنیت ختم کرنے والے ٹربیونلز کے سربراہان جاوید رشید محبوبی، کاظم ملک اور رانا زاہد کو بھی سکھا دیا ہے۔ سردار رضا خان صاحب نے ان تینوں حضرات کی مدت ملازمت میں توسیع سے انکار کر دیا جو 31 اگست کو ختم ہو رہی ہے۔ اعلان کی کیا ضرورت تھی۔ چلو مسلم لیگ ن کے تازہ تازہ زخم ذرا مندمل ہو جائیں گے باقی کسر ضمنی الیکشن میں نکل جائے گی، اگر ہوئے تو!مسلم لیگ ن نے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرانے کے لئے تازہ ترین موقف اختیار کیا تھا کہ انتخابی مشینری تو سیلاب میں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اب کیا لودھراں اور لاہور کے ضمنی الیکشن میں انتخابی مشینری فارغ ہو گی؟ بہرحال الیکشن ہوتے ہیں تو مسلم لیگ ن کے دونوں حلقوں میں جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ اب وہ ماحول نہیں جس میں 2013ءمیں الیکشن ہوئے تھے اس لئے ن لیگ کے دانشوروں کے دعوے درست ہیں۔
حلقہ 122سے ٹربیونل کا فیصلہ آیا تو ن لیگ کے کچھ رہنما ضرورت سے زیادہ ہی تپے ہوئے تھے۔ رانا ثناءاللہ کی تو غصے سے مونچھیں رنگ بدل رہی تھیں۔ پرویز رشید آگ بگولہ تھے۔ ٹربیونل کے سربراہ کاظم ملک پر تعصب کے الزام لگائے۔ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ ان کے بیٹے کو مسلم لیگ ن نے ٹکٹ نہیں دیا تو انہوں نے ایاز صادق کی رکنیت ختم کر دی۔ ۔۔جج کے فیصلے بولتے ہیں جج نہیں بولتے۔ اس جج کا فیصلہ بولا تو جن کے خلاف گیا وہ ذاتیات پر اتر آئے۔لوگ سمجھے کہ ایک ”ڈھگے“ والا ملک ہو گا جو ” جج نہیں بولتے“ کے اصول کے پیچھے چھپا رہے گا مگر وہ دو ڈھگوں والا ملک ثابت ہوا۔ اپنا موقف ٹی وی پر دیدیا۔ غیرت، وقار عزت کا یہی تقاضا تھا۔انہوں نے مچھندروں کی طرح اخلاقیات کا دامن پھر بھی نہیں چھوڑا۔ماہرین نے فرمایا، ان کو ٹی وی پر نہیں آنا چاہئے تھا۔ منور حسن صاحب نے فوج کو جو کچھ کہا اس پر حکومت خاموش رہی تو فوج کو خود جواب دینا پڑا ۔اگر کاظم ملک کی طرف سے کوئی وضاحت کر دیتا تو ان کو خود وضاحت کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ وضاحت حکومت نے کرنی تھی جو خود ادھار کھائے بیٹھی تھی۔ جسٹس (ر) کاظم ملک، جسٹس (ر) جاوید رشید محبوبی اور جسٹس (ر) رانا زاہد محمود نے حکومت کے خلاف فیصلے نہیں دئیے۔ انصاف کے تقاضوں، اصول اور ایمانداری سے فیصلے دے کر مدت ملازمت سے محروم ضرور ہو گئے تاہم انصاف کا میزان گرنے اور جھکنے نہیں دیا ،ان کا تاریخ میں نام سنہری حروف میں لکھا جائیگا جبکہ دشنام طرازی کرنے والوں نے اپنے گناہوں میں ایک اور کا اضافہ کر لیا۔