حکومتوں میں پڑھے لکھے آدمی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مشاہد حسین وزیر ہوئے اور اس کے بعد معروف سفارت کار مسعو عبداللہ خان آزاد کشمیر کے صدر کی حیثیت میں آئے۔ مشاہد حسین آج کل کہاں ہیں؟ ایرانیوں کو پتہ ہو گا۔ شاید وزیر ہوئے تھے تو عجیب لگا تھا کہ پڑھا لکھا واقعی جینوئن دانشور بھی وزیر ہو سکتا ہے۔ مزید عجیب یہ کہ مشاہد حسین کو وزیر نواز شریف نے بنایا تھا۔ نواز شریف کے ابتدائی زمانے میں مشاہد سیاسی طور پر سامنے آئے تھے۔ اب سامنے نہیں ہیں مگر کہیں نواز شریف کے آس پاس ہیں کبھی وہ نواز شریف کے وزیر اطلاعات تھے۔
اب آزاد کشمیر کے لئے ایک نامور سفارتکار مسعود صاحب کا ذکر پڑھ کر حیرت ہوئی۔ مگر یہ تو ہو گا کہ اب آزاد کشمیر اور کشمیر کا مسئلہ بہت واضح طور پر جینوئن طریقے سے اور نسبتاً غیر سیاسی انداز میں دنیا والوں اور بھارت والوں کے سامنے آئے گا اور بڑا مزا آئے گا۔ مشاہد کے وزیر ہونے سے کوئی انقلاب نہیں آ گیا تھا مگر یہ بات ایک اچھے خواب کی طرح لگی۔ اس خواب کی تعبیر بھی سامنے نہ آئی مگر ہماری نیند تو سرشار ہو گئی کہ ہم نے کوئی خواب دیکھا ہے۔ ورنہ سیاست کی اجاڑ زمینوں میں ہم غفلت کی گوشہ نشینی میں چلے گئے تھے۔
مجھے محبت ہے مشاہد حسین سے مگر اس محبت کو میری ساری محبتوں کی طرح اظہار کا موقع کم کم ملا۔ ان کے بڑے بھائی مواحد حسین سے میری پکی دوستی ہے مگر وہ امریکہ چلے گئے ہیں۔ جب آتے ہیں تو لگتا نہیں کہ وہ امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ امریکہ کے خلاف ہی بولتے ہیں اور کوئی ایسے دروازے کھولتے ہیں جن پر کوئی دستک بھی اب نہیں دیتا۔
مسعود صاحب کی صدر آزاد کشمیر ہونے کی مجھے اتنی حیرانی ہوئی کہ میرے آس پاس ویرانی چھا گئی۔ ایک تو یہ کہ آزاد کشمیر کا پہلا صدر ہے جس کی عالمی امور پر نظر ہے جو کشمیر کے معاملے کو بھی جانتا ہے صرف کشمیر کے مسئلے کو ہی نہیں جانتا۔ ہمارے بیشتر صدر آزاد کشمیر تھے کہ مسئلہ کشمیر کو صرف اتنی اہمیت دیتے تھے کہ وہ صدر آزاد کشمیر بن گئے ہیں۔ یہ مسئلہ بہت منافع والا ہے۔
آزاد کشمیر کے سبھی صدر سردار تھے۔ سردار قیوم خان، سردار سکندر حیات خان، سردار احمد انور خان، سردار محمد یعقوب خان سب کے نام کے ساتھ آخر میں خان بھی آتا ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر بھی سردار ہیں۔ سردار سکندر حیات خان، سردار قیوم خان ، سردار تحسین احمد خاں ، سردار یعقوب خان، یہی لوگ صدر بھی تھے۔ اب صدر مسعود عبداللہ بھی خان ہیں اور سردار بھی ہیں۔
انہوں نے صدر آزاد کشمیر کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر کے لئے 6 نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے۔ اس سے پہلے کسی صدر نے پیش نہ کیا۔آزاد کشمیر میں قومی اتحاد، حلیفوں کی تعداد میں اضافہ ، امریکہ سمیت بڑی طاقتوں تک اپنا مقدمہ لے جانا، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کونسل اور دوسرے متعلقہ اداروں کو آگاہ کرنے سمیت کئی دیگر نکات بھی ایجنڈے میں شامل ہیں۔ ان سے بہت کچھ کرنے کی امید ہے کیونکہ وہ روایتی نہیں پڑھے لکھے صدر ہیں۔ اللہ ان کو ان مبارکبادوں کا واقعتاً حقدار بنائے۔