اس تحریر میں اس نکتہ پر بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جاگیرداری نظام یا جاگیرداروں کا خاتمہ ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی قائم کرکے معاشرتی انصاف کے ذریعے ترقی و خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔ معاشرہ مختلف طبقات یعنی امیر‘ غریب‘ صنعتکار‘ مزدور‘ افسر‘ ماتحت‘ لیڈر‘ ورکر وغیرہ سے مل کر وجود میں آتا ہے۔ ان طبقات میں سے کسی ایک طبقے کے تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا کسی طور پر اخلاقی اقدام نہیں اور نہ ہی یہ مسئلہ کا حل ہوگا بلکہ مخصوص طبقے کے استحصالی کردار کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون کی حکمرانی قائم کی جاتی ہے جو ظلم‘ ناانصافی‘ معاشی استحصال‘ قتل‘ آبروریزی جیسی بیماریوں پر قابو پا کر صحت مند سماج کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان میں کسی بھی طبقۂ فکر سے بات کی جائے اس کا نقطہ نظر یہی ہوتا ہے کہ صرف جاگیرداروں نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے لہٰذا جاگیروں پر قبضہ کرکے یا غریب لوگوں میں تقسیم کرکے ملک کے تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ میری دانست میں یہ کسی معتدل حل کی بجائے متشددانہExtremist رویہ ہے۔ معاشرے میں جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہو جاگیریں ہوں اگر وہاں قانون کو اصلی روح کے ساتھ نافذ کرکے ہر مجرم خواہ اس کا تعلق کسی بھی طبقے یا گھرانے سے ہو کو قانون کی گرفت میں لیا جائے تو حقیقی طور پر مہذب اور ترقی یافتہ سماج کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔
اکثریتی لوگ جاگیرداری نظام یا جاگیرداروں کو ہی تمام فسادات کی جڑ قرار دیتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ جاگیرداروں کی ملکیت میں بڑی بڑی زمینیں ہیں جن میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں انسان غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جاگیردار ان کو دانستہ طور پر تعلیم اور ترقی سے محروم رکھتے ہیں تاکہ یہ لوگ خوشحال ہو کر ان کے چنگل سے آزاد نہ ہو جائیں۔ اس طبقۂ فکر کا استدلال یہ بھی ہے کہ جاگیردار کے علاقوں میں بسنے والے ووٹرز اپنی مرضی سے ووٹ نہیں دے سکتے لہٰذا غلام اپنے آقا ہی کو منتخب کرتا ہے۔ در حقیقت پاکستان مختلف النوع طبقات پر مشتمل سماج ہے۔ ملک کے ہر حصہ میں جاگیردار ہے نہ جاگیرداری نظام بلکہ یہ مخصوص علاقے کا مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ جہاں جہاں جاگیرداری نظام نہیں کیا وہاں عوام بہت خوشحال زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا جاگیردار کے علاقہ سے باہر بسنے والے انسان کسی گھمبیر مسئلے کا شکار نہیں؟ یقینا پاکستانی سماج کا ہر طبقہ اورہر حصہ مسائل سے پریشان ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ذاتی دکھوں کے ساتھ ساتھ قومی مسائل کا دکھ بھی برابر کی شدت رکھتا ہے۔
پاکستانی آبادی کو دو سماجی حصوں یعنی دیہاتی اور شہری میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ دیہاتی زرعی دنیا کو مزید جاگیردار‘ درمیانے اور چھوٹے زمینداروں‘ مزارعوں اور کمّی یا مزدور میں تقسیم کیا جا تا ہے۔ پھر صنعتی دنیا ہے جس میں آجر اور اجیر کے مسائل ہیں‘بیورو کریسی کی الگ دنیا ہے مرکزی اور صوبائی کیڈرز اور پھر افسروں اور ماتحتوں کے مسائل‘ دفتری لوگوں اور سائلین کا مسئلہ ہے بلکہ ’افسر‘ اور ’سائل‘ کے الفاظ ہی سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان تعلقات کی کیا نوعیت ہو سکتی ہے۔ سیاست ایک الگ دنیا ہے جس میں لیڈر اور ووٹر اور حکومت اور غیر منتخب اداروں کا ٹکرائو۔ پھر مذہبی دنیا ہے جس میں اسلام اور پیروکاروں کا مسئلہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔ فکری غربت کا عالم اس نکتہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دورِ حاضر میں مقتول بھی شہید اور قاتل بھی شہید… اور دونوں طرف اسلام کی اصلی پیروکاری کا دعویٰ ہے۔ صوبائیت پرست اور مذہبی دہشت گردی اور دیگر مسائل پیدا کرنے والے اور ان کا شکار ہونے والے طبقات ہیں جن کے مجموعہ کو پاکستان سوسائٹی کہا جاتا ہے۔ ہم جہاں اور جس حصہ کے اندر جھانکیں ایک خوفناک تصویر نظر آتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں صرف ایک طبقہ کو موردِ الزام ٹھہرانا انصاف نہیں۔ ایسی سوچ سماج کے دوسرے دشمن عناصر کو بری الذمہ قرار دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی ترقی اس وقت ممکن ہے جب اہلِ قلم اور صاحب الرائے افراد ان تمام بھیانک تصاویر کو سامنے لائیں تاکہ حق اور باطل کی پہچان آسان ہو جائے۔
جاگیرداروں کے خلاف عموماً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی ملک کے لیے کوئی خدمات نہیں اور ابھی تک ایوانوں میں بیٹھ کر ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کیا جنرل ضیاء الحق‘ ایوب خان‘ پرویز مشرف‘ یحییٰ خان‘ بڑے بڑے افسر اور ججز جو سیاست دانوں کے آلہ کار بنے رہے اور ملک کو لوٹتے رہے اور لوٹ رہے ہیں۔ کیا یہ تمام جاگیردار ہیں؟ میرے خیال میں پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان مڈل کلاس نے پہنچایا ہے جو مارشل لاز اور کرپشن کی صورت میں ہے۔ پاکستانی مڈل کلاس کی نفساتی غربت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ تمام مارشل لاء ادوار میں مڈل کلاس فوجی افسروں نے کابینہ سازی کے لیے خود جاگیردار گھرانوں سے رابطے کرکے ان کو وزارتیں دیں۔ کیونکہ فوجی حکمران ان روایتی خاندانوں سے وابستگی اپنی مضبوطی سمجھتے تھے۔ ان کے ذہن میں کہیں یہ انگریزی اصول بھی چھپا ہوا تھا کہ حکمرانی کا حق صرف امراء کے طبقے کو ہے۔ امریکی صدر تھامس جیفرسن حکومتی امور میں عوام الناس کی شرکت کا علمبردار تھا مگر جب خود برسرِ اقتدار آیا تو اس نے مڈل کلاس کو یکسر نظر انداز کر دیا اور کہا:
These are good people but not wise in the governmental affairs.
پاکستان کے فوجی حکمران اگر جاگیرداروں کی بجائے مڈل کلاس کو آگے لاتے تو کم از کم سیاست دانوں کی ایک نسل مڈل کلاس سے بھی ہو جاتی جن میں سے شاید کوئی ایماندار لیڈر بھی نکل آتا۔
ایک طرف پاکستان کے قیام کو مسلمانوں کے لیے ازلی رحمت قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف پاکستان بنانے والے جن میں جاگیردار ہراول دستہ تھے کی نفی کی جاتی ہے۔ دولتانہ‘ ممدوٹ‘ قریشی‘ نون‘ سید‘ کھٹڑا اور بہت سے دوسرے لوگ جاگیردار ہی تھے جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دے کر پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔
پنجاب یونینسٹ پارٹی کے جھنڈے تلے تمام زمینداروں نے اپنے اپنے ہم مذہب لوگوں کے لیے کام کیا۔ اس ضمن میں سرفضل حسین‘ سکندر حیات اور دوسرے رہنمائوں کی خدمات سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ یہ تمام اگر آل انڈیا مسلم لیگ کے خلاف تھے مگر دو قومی نظریہ کے تحت ہندوئوں اور سکھوں سے الگ منتخب ہوتے تھے اس طرح نظریاتی جنگ میں یونینسٹ جاگیردار غیر دانستہ طور پر ہی سہی مگر آل انڈیا مسلم لیگ کو مضبوط کر رہے تھے۔ دو قومی نظریہ مسلم لیگ کا نصب العین تھا جس کے تحت پاکستان حاصل ہوا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1947ء میں دوسروں کے ساتھ ساتھ خضر حیات ٹوانہ نے بھی مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
اس کے علاوہ کوئی تحریک بغیر روپے پیسے کے نہیں چل سکتی۔ تحریکِ پاکستان کے ابتدائی دور سے لے کر 1947ء تک جاگیرداروں کا مسلمانانِ برصغیر کے لیے خدمات میں نمایاں کردار ہے۔ عام آدمی کو تو ووٹ دینے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ عوام کی خدمات اپنی جگہ قابلِ رشک ہیں جس میں مسلم لیگ کے جلسوں اور احتجاج کی ضرورتوں کو پورا کرنا عوامی طبقوں ہی کے مرہونِ منت تھا مگر تحریکِ پاکستان کے دور میں ان کانفرنسوں‘ جلسوں‘ اشتہارات‘ جلوسوں میں شرکاء کی رہائشی اور غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے خطیر رقم کہاں سے آتی تھی؟ یہ جاگیردار ہی تھے جو ان تمام انتظامات کا بڑا خرچہ ادا کرتے تھے۔
انگریز‘ ہندو‘ سکھ اور دوسرے رہنمائوں سے ملاقاتوں کے لیے شملہ‘ دہلی اور دور دراز علاقوں کے سفر‘ کی دن کا قیام‘ دفتری امور کا خرچہ‘ افرادی قوت کو متحرک رکھنا۔ ان تمام سرگرمیوں کے لیے بہت بڑی رقم کی ضرورت تھی جس کا بڑا حصہ جاگیرداروں کی جیب سے نکلتا تھا۔
(جاری ہے)
جاگیرداری کا خاتمہ یا رُول آف لائ؟(1)
Aug 30, 2017