امریکہ کی نئی افغان پالیسی پر سب سے زیادہ خوشی بھارت کو ہوئی۔ ٹرمپ کے صدر بننے پر بھی بھارت میں شادیانے بجے تھے لیکن یہ لوگ شاید بھول جاتے ہیں کہ پاکستان جانبازوں کا ملک ہے جو اپنی طرف اٹھنے والی کوئی بھی میلی آنکھ پھوڑ ڈالنے کی جرات رکھتا ہے۔ ٹرمپ کی نئی جارحانہ پالیسی نے پاکستان کے لئے آپشنز کھول دئے ہیں کہ وہ امریکہ جیسے مفاد پرست اور طوطا چشم ملک پر ناصرف انحصار ختم کر دے بلکہ اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کرنے میں مکمل آزاد ہو جائے۔ چین‘ روس اور ایران نے امریکہ کی نئی پالیسی کے خلاف پاکستان کی حمایت کی ہے۔ اس پر پاکستان کے سخت ردعمل نے امریکہ کو یقیناً سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا کہ شاید انہوں نے کوئی غلط حکمت عملی اپنا لی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ سے ہی ”بگ باس“ بن کر اپنی مرضی کے فیصلے پاکستان پر مسلط کرنے کا وطیرہ اپنایا ہوا تھا۔ البتہ اب اسے اپنی دال گلتے نظر نہیں آ رہی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ایک سو تیس ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ ستر ہزار کے قریب فوجی و سویلین لوگوں کی شہادت کا صدمہ الگ برداشت کرنا پڑا۔ بدلے میں اسے دہشت گردوں کا مددگار ہونے کا طعنہ ملا۔ امداد لے کر کام نہ کرنے کی پھبتی کسی گئی اور اب اسی کے خلاف محاذ گرم کرنے کی دھمکی بھی دے دی گئی ہے۔ امریکہ جس امداد کا رونا روتا ہے وہ پاکستان کے ہونے والے معاشی نقصان کا عشر عشیر بھی نہیں۔ بات سادہ سی ہے۔ امریکہ اپنی پوری کوشش‘ جدید اسلحے اور کمزور افغان حکومت کو مسلسل امداد دینے کے باوجود افغانستان میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ وہ اس ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر خود کھسیانی بلی بن کر کھسک جانا چاہتا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی نشاندہی کے باوجود بھی بھارت کو افغانستان میں اپنا اتحادی قرار دیا۔ بھارت نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر وہاں اپنے بیسیوں قونصل خانے کھول لئے۔ یہ قونصل خانے دہشت گردوں کو خریدنے‘ انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے اور پاکستان میں دہشت گردی کروانے کے لئے استعمال کئے جانے لگے۔ کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیانات نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ پاکستان نے اس معاملے کو اٹھایا بھی لیکن امریکہ نے اس پر کان نہ دھرے۔ آج اگر امریکہ افغانستان میں خجل خوار ہو رہا ہے تو اس میں اس کے اتحادی بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ حالانکہ کوئی بھی ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ بھارت کا افغانستان میں معاملہ ”تو کون؟ میں خواہ مخواہ“ والا ہے۔ بھارت کی کوئی سرحد‘ سمندری حدود یا ہوائی حدود افغانستان سے نہیں ملتیں۔ اسے صرف پاکستان دشمنی ہی افغانستان کی طرف کھینچ لاتی ہے۔
سی پیک کا درد بھی بھارت کوکسی کروٹ چین نہیں لینے دیتا۔ مودی کو خواب میں بھی سی پیک ایک سیاہ ناگ کی مانند نظر آتا ہے جو اس کے دماغ میں ڈنگ مارتا ہے اور اس کی نیندیں حرام کرتا رہتا ہے۔ یہی بات اسے چین کے خلاف بھی مخاصمانہ رویہ اپنانے پر مجبور کرتی ہے۔ ڈوکلام کے علاقے میں ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کا اجتماع شاید اس نے چین کو ڈرانے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ اسی سرحد پر تین لاکھ چینی فوجی بھی موجود ہیں۔ اگر بھارت نے چین کو اشتعال دلانا جاری رکھا تو کوئی بڑی بات نہیں کہ چین اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے بھارت کو سبق سکھا دے۔ ویسے شاید بھارت کو ۱۹۶۲ءمیں ملنے والا سبق بھولا نہیں ہو گا۔
ادھر بھارتی آرمی چیف جنرل بپن جو نام سے شاید چچا چھکن کے کوئی رشتہ دار معلوم ہوتے ہیں انہوں نے سی پیک کو بھارت کے لئے نقصان قرار دیا ہے۔ انہوں نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ اس نے خطے میں پراکسی وار شروع کر رکھی ہے۔ اس بیان کا مقصد امریکہ کی افغان پالیسی کو حق بجانب قرار دینے اور اس میں مزید سختی لانے کا عنصر کارفرما نظر آتا ہے۔ حالانکہ موصوف اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ پراکسی وار کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بھارت کی اپنی پالیسی ہے جسے اپنا کر وہ اپنے ہمسایوں کو زیر نگیں رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت میں مذہبی‘ فرقہ وارانہ اور سیاسی اقلیتوں کو ناصرف جانی و مالی نقصان پہنچایا جا رہا ہے بلکہ انہیں بھارت سے نکل جانے کے حکمنامے سنائے جا رہے ہیں۔ گا¶ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام اور مظاہروں کو روکنے کےلئے سکھوں کی نسل کشی اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں ۔ کشمیر میں رقم ہونےوالی بربریت اس کے علاوہ ہے۔