قائداعظم اور احیائے ملت اسلامیہ

قائداعظم پاکستان کی سیاسی جنگ دو قومی نظریئے کی بنیاد پر لڑرہے تھے لہذا اپنے بیانیے میں ایسی اصطلاحات استعمال کرنے سے گریز کرتے رہے جن سے مسلمان قوم میں فِکری انتشار پیدا ہوسکتا ہو۔ ان کی نظر عظیم نصب العین پاکستان کے قیام پر تھی۔ قائداعظم فرقہ ورانہ مذہبی بحثوں سے الگ تھلگ رہے۔ انہوں نے اکثر اوقات ’’مسلم ریاست‘‘ کے قیام کی بات کی البتہ ایک دو بار ’’اسلامی ریاست‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کئے۔ متعدد مؤرخین، مُفکرین اور دانشوروں قائداعظم کو لبرل اور پروگریسو لیڈر قرار دیتے ہیں‘ جو چاہتے تھے کہ ریاست مذہب میں مداخلت نہ کرے اور اسلام کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ قائداعظم نے پاکستان حاصل کرنے کے بعد اپنا مؤقف 11 اگست 1947ء دستور ساز اسمبلی کے خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں بیان کردیا کہ ’’مذہب یا عقیدے کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہوگا‘‘۔ اپنے سیاسی نظریئے کے اظہار کے بعد قائداعظم نے بحیثیت گورنر جنرل ایک فیصلہ بھی ایسا نہ کیا جو مذہبی نوعیت کا ہو جبکہ ان کے اے ڈی سی عطاء ربانی کے مطابق قائداعظم نے سرکاری دفاتر اور سفارت خانوں کیلئے تھری پیس سوٹ اور ہاتھ میں سگار والی پورٹریٹ کا انتخاب کیا اور اپنی کابینہ میں ایک ہندو اور ایک احمدی کو شامل کیا۔ جنرل ضیاالحق نے اسلام کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور اس سے جو بھیانک اور تباہ کن نتائج نکلے اس کے بعد ہمیں قائداعظم کے دوٹوک مؤقف کو تسلیم کرلینا چاہئے تھا مگرافسوس بعض دانشور آج بھی قائداعظم کی شخصیت، سیاست اور نظریئے کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 1973ء کے متفقہ آئین کے بعد سب کو یکسو اور متفق ہوجانا چاہئے تھا مگر اس آئین کے بعد بھی بے معنی اور بے مقصد فکری بحثیں جاری ہیں۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے ایک محترم نامور دانشور صحافی نے ایک ٹاک شو میں ایک دستاویز لہراتے ہوئے پُرجوش دعویٰ کیا کہ قائداعظم نے اگست 1947ء میں احیائے ملت اسلامیہ کے نام سے ایک محکمہ کی منظوری دی جس کا سربراہ نومسلم مذہبی سکالر محمد اسد کو نامزد کیا۔ راقم نے چونکہ قائداعظم پر سنجیدہ تحقیقی کام کیا ہوا ہے مُجھے کسی مُستند کُتب میں یہ حوالہ نہیں ملا جبکہ ’’جناح پیپرز‘‘ کے مطابق مولانا شبیر احمد عثمانی کو مذہبی امور کا مشیر بنوانے کیلثے سرگرم لابی کی گئی۔ مولانا شبیر عثمانی نے تحریک پاکستان میں پُرجوش کردار ادا کیا تھا ان کا استحقاق بھی بنتا تھا مگر قائداعظم دبائو میں نہ آئے اور اپنے نظریاتی مؤقف پر ڈٹے رہے۔ سیاسی تاریخ کا گہرا شعور رکھنے والے غیرجانبدار دانشور افتخارالحق نے تجویز پیش کی کہ دانشور صحافی کے دعوے کی تحقیق کی جانی چاہئے تاکہ فکری مغالطے کا ازالہ ہوسکے اور اصل حقیقت سامنے آسکے۔ جب نیت نیک ہو تو اللہ مدد کرتا ہے۔ مجھے محمد اسد کی شہرۂ آفاق آپ بیتی ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کا دوسرا حصہ مل گیا جس کا ترجمہ نامور محقق محمد اکرم چغتائی نے کیا ہے جسے ’’محمد اسد بندہ صحرائی‘‘ کے نام سے ادارہ نشریات لاہور نے شائع کیا ہے۔ محمد اسد آسٹریا کے معروف یہودی صحافی تھے انہوں نے اسلام قبول کیا اور اسلام پر قابل تحسین اور قابلِ رشک تحقیقی کام کیا۔ وہ اپنی آپ بیتی پارٹ ٹو میں احیائے ملت اسلامیہ ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔
اکتوبر 1947ء کی صُبح کو نواب آف ممدوٹ نے مجھے اپنے دفتر بلایا جونہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پرواہ کئے بغیر کہنے لگے ’’اسد صاحب ! میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹھوس قدم اُٹھانا چاہئے۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کُچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں وزیراعظم سے رجوع کرنا چاہئے؟‘‘ کئی روز سے مُجھے ایسے سوال کا انتظار تھا چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا۔ ’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا، اس لے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجئے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہئے جو ان نظریاتی مسائل کو زیربحث لاسکے جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خُدا نے چاہا تو آئندہ حکومتِ کراچی بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم اِدھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔ نواب صاحب فوری قُوت فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے چنانچہ انہوں نے مُجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہئے؟‘‘۔ میں نے جواباً عرض کیا ’’اس کا نام ’’محکمہ احیاء ملت اسلامیہ‘‘ مناسب رہے گا کیونکہ اس سے ہمارے مقصد کی بھرپور ترجمانی ہوگی یعنی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی معاشرتی زندگی اور فِکر کی تعمیر نو‘‘۔ ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا ’’بالکل درست‘ ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجئے۔ آپ کو سرکاری طور پر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبہ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے اُمید ہے آپ اسے قبول کرلینگے‘‘۔
محمد اسد نے ’’اسلامی دستور سازی‘‘ کے بارے میں ایک تحقیقی پیپر لکھا جس کے بعد ان کی وزیراعظم لیاقت علی خاں سے ایک ملاقات ہوئی جو محمد اسد کے مطابق حوصلہ افزاء رہی مگر تین ماہ بعد جنوری 1948ء میں محمد اسد کی دوسری ملاقات لیاقت علی خاں سے ہوئی تو انہوں نے محمد اسد کو محکمہ خارجہ میں مشرق وسطیٰ کیلئے ڈپٹی سیکرٹری تعینات کردیا چنانچہ ’’احیائے ملت اسلامیہ‘‘ کا محکمہ بند ہوگیا۔ اگر قائداعظم نے اس محکمے کی منظوری دی ہوتی تو یہ محکمہ اپنا کام جاری رکھتا۔ محمد اسد اپنی آپ بیتی میں لیاقت علی خان سے دوسری ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’جنوری 1948ء کو لیاقت علی خاں نے مجھے دوبارہ کراچی بلایا۔ اس دفعہ وہ میری تجاویز پر جرح کرنے کے بجائے اپنی کوئی تجویز پیش کرنا چاہتے تھے۔ ’’آپ پاکستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو عربی اور فارسی پر کامل دسترس حاصل ہے۔ ہمیں اپنی وزارت خارجہ میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ آپ اس میں شامل ہوں اور وقتی طور پر احیاء ملت اسلامیہ کی موجودہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں۔ کیا آپ میری اس تجویز پر غور کریں گے؟‘‘ چونکہ یہ تجویز پاکستان کے وزیراعظم نے پیش کی تھی اس لئے یہ باآسانی رد نہیں کی جاسکتی تھی۔ بلاشبہ احیاء ملت اسلامیہ کے ادارے سے میں جذباتی طور پر منسلک تھا لیکن لیاقت علی خاں کی پیش کردہ تجویز کی اہمیت کا بھی مجھے پورا احساس تھا‘‘۔
محترم دانشور صحافی نے محمد اسد کی آپ بیتی پڑھی ہوتی تو وہ کبھی اتنا بڑا دعویٰ نہ کرتے۔ پاکستان کے مؤرخین اور دانشوروں سے بڑے ادب اور احترام سے اِلتجا ہے کہ وہ قوم میں فِکری انتشار پیدا کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں قوم میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے اور عوامی و قومی مسائل کے حل کیلئے صرف کریں۔ 1973ء کا متفقہ آئین عمرانی معاہدہ ہے ۔ ہمیں بے مقصد فِکری بحثیں ختم کرکے اسی مقدس دستاویز کی روشنی میں آگے بڑھنا چاہئے ۔ محمد اسد لکھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ کی درخواست کی تو انہیں بتایا گیا کہ وہ پاسپورٹ پر پاکستانی شہریت نہیں لکھ سکتے کیونکہ ابھی مرکزی اسمبلی نے شہریت بل منظور نہیں کیا لہذا وہ پاسپورٹ پر برطانوی یا آسٹرین شہریت درج کرلیں۔ محمد اسد نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے مشرقِ وسطیٰ کے سرکاری دورے پر جائوں اور پاسپورٹ پر پاکستانی شہریت نہ لکھی ہو۔ لیاقت علی خاں کی سفارش پر محمد اسد کو پہلا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ محمد اسد کی آپ بیتی بڑی دلچسپ ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی ان سے اس لئے ناراض ہوگئے کہ وہ مولانا مودودی کی خواہش کے مطابق لباس نہیں پہنتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن