ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی ہے :
کیونکہ نہ بجلی ہے۔ نہ گیس۔ شہروں میں دس سے بارہ گھنٹے اور دیہاتوں میں 16 سے18 گھنٹے بجلی بند ہونا ایک معمول ہے۔ متعلقہ حضرات بڑی ڈھٹائی سے بیان دیتے رہتے ہیں۔ کہ ً بغیر نوٹس لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی ً ۔ بیچاری عوام کو اس سے کیا غرض۔ کہ لوڈشیڈنگ شیڈول کے مطابق ہے یا نہیں۔ ان کی جانے بلا کہ شیڈول کیا ہوتا ہے۔مہربانوں کی چالاکی دیکھئے کہ آتے کے ساتھ ہی 2013 میں ہی کہہ دیا کہ 2018 میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائیگی۔ جبکہ 2018تو آخری سال ہے ۔ ان کی چالاکی دیکھئے اور بھولے عوام کی معصومیت ۔ یہ اب بھی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ جلد ہی بجلی کی کمی ختم ہو جائیگی۔ حالانکہ NEPRAنے اخبارات میں خبر لگائی کہ 2018 میں بھی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو سکتی ۔ساری دنیا کو یاد ہے کہ موجودہ حکومت بجلی کی بحالی کے وعدوں کے بل بوتے پر ہی اقتدار میں آئی تھی حیرانگی کی بات ہے کہ اب تک یعنی گزشتہ پانچ سالوں میں اتنی بجلی بھی سسٹم میں شامل نہیں ہو سکی کہ کچھ فرق پڑ جاتا اور حالات قدرے بہتر ہو جاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالات اگر پہلے سے بدتر نہیں ہوئے تو بہتر بھی نہیں ہوئے۔ گیس کے حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ہر روز اخبار میں لکھوایا جاتا ہے کہ ’’ بجلی 2 روپے چند پیسے سستی ہو چکی ہے ‘‘ یا یہ کہ ’’سستی ہو رہی ہے‘‘۔ حالانکہ بجلی کے بل بہت زیادہ آرہے ہیں میرے گھر کا بل گزشتہ کی نسبت زیادہ آیا ہے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ کیا ساری بجلی ایک دم 2018 میں اکٹھی پیدا ہو جائے گی؟ اتنے بلند دبانگ دعوے کس لیے کیے جاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات کیوں دئیے جاتے ہیں اگر بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ تواسکو لوگوں تک پہنچایا جائے ساری بجلی کب پیدا ہو گی۔ کب لوگوں کو گرمیوںمیں سکون ملے گا خاص کر رات کو ورنہ تو یہ کہ ’’نہ نومن تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی ‘‘۔محکمہ بجلی والے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ جب بجلی کی پیداوار مکمل ہو جائیگی تو بجلی اتنی ہو گی کہ لوگ لینے سے گریزاں ہوں گے۔کیا مہنگائی کم ہو گئی ہے ۔حالانکہ ہر روز اخبارات میں ہر چیز کے مہنگے ہونے کا ہی ذکر ملتا ہے آپ کسی دکان کسی سٹور پر چلے جائیں آپ کو ہر چیز پہلے سے زیادہ قیمت پر ملے گی۔ ہر پاکستانی مہنگائی کے خلاف بولتا ہوا پایا جاتا ہے تعجب ہے کہ حکومتی ادارے کس طرح یہ خبر چھپوا دیتے ہیں کہ مہنگائی کا رجحان کم ہونے کی طرف ہے حالانکہ یہ تو ہر ماہ بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جب ٹیکس پر ٹیکس لگائے جائیں گے exports کم ہوتی جائیں گی اور روپے کی قدر کم ہوتی جائے گی اور ڈالر کی قیمت زیادہ ہوتی جائے گی تو مہنگائی کا زیادہ ہونا لازم ہو گا۔ پتہ نہیں خدا کا خوف کیوں نہیں آتا کہ غربت کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں گزشتہ چار سال میں سب سے زیادہ خودکشیاں ہوئیں کس ماں یا باپ کا دل کرتا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو مار دے لیکن آئے روز ایسے واقعات دیکھنے میں پڑھنے میں آتے ہیں اور اس کی وجہ عام طور پر غربت ہی ہوتی ہے لوگوں کی قوت برداشت ختم ہو گئی ہے اور آدھے سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے رہ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی مخلوق کے لیے وافررزق پیدا کرتا ہے مگر نظام کی خرابی کی وجہ سے 3% لوگ باقی 97% لوگوں کے وسائل پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور غریب مفلوک الحال اور زندگی سے تنگ آئے ہوئے لوگ اپنی قسمت اور تقدیر کو کوسنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے لیکن میں سوچتا ہوں کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا آخر لوگ مجبور ہو کر کچھ نہ کچھ کرنے پر تل جائیں گے کہ وہ بھی انسان ہیں اور پاکستانی ہیں کیا ان کو جینے کا حق نہیں ہے مہنگائی نے ان کا جینا دو بھر کر دیا ہے بڑی مشکل سے اگر بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھا بھی لیں تو ملازمت نہیں ملتی بچی اگر جوان ہو رہی ہو تو ماں باپ کی نیند حرام ہو جاتی ہے کہ اس کی شادی کے اخراجات کہاں سے آئیں گے۔بہتر ہو گا کہ گزشتہ تین چار حکومتوں کا تقابل کرنے کے لیے حکومت کے آنے پر اشیاء کے ریٹ اور حکومت کے جانے پر بھی ریٹ لیے جائیں پھر معلوم ہو جائے گا کہ ہر حکومت کے دورمیں کتنی مہنگائی ہوئی ہے۔
ترقی ہو رہی ہے اور اسکے ساتھ خوشحالی آرہی ہے۔ دونوں باتیں غلط ہیں نہ ترقی ہوئی ہے نہ خوشحالی آئی ہے قرضہ سب سے زیادہ اس حکومت میں لیا گیا ہے۔ یہاں تک قرضہ ہر سود کی قسط کے لیے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے معیشت کے کسی بھی ماہر نے پاکستان کی معیشت کے بارے میں خیر کی خبر نہیں دی ہے ہر ایک نے اخباروں میں لکھا ہے اور ٹی وی پر بتایا ہے کہ ً حالات بہت خراب ہیںً۔
سادہ سی بات ہے کہ لوگوں کی آمدنی زیادہ نہیں ہوئی اور اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے یہ کیسی ترقی اور خوشحالی ہے میری جیب میں پڑا ہوا سو روپے کا نوٹ اسی روپے کا رہ گیا ہے یہ ترقی نہیں بلکہ ترقی معکوس ہے غریب آدمی غریب تر ہو رہا ہے چونکہ ہر چیز پر غریب اور امیر دونوں کو یکساں طور پر 17% ٹیکس دینا پڑتا ہے غریب آدمی جس میں بھکاری بھی شامل ہے وہ تو ٹیکس ادا کرتا ہے مگر امیر آدمی اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا نہیں کرتا ایک عام پڑھا لکھا آدمی پوچھتا ہے کہ ًجناب کہاں کی ترقی اور کہاں کی خوشحالی ً۔
امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے
پولیس کی تمام burking (پرچہ نہ درج کرنا) کے باوجود statistics نکال کر دیکھ لیں جرائم کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے پولیس کو اس کے اصل کام سے ہٹا کر دیگر کاموں پر لگا دیا گیا ویسے بھی میرٹ تو اب مذاق بن گیا ہے اپنی ذاتی پسند اور نا پسند اور وفاداری بشرط استواری ہی اصول رہ گیا ہے ہمارا دعوٰی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا آدمی رات کے اندھیرے میں اپنے ہی گائوں میں باہر نکل کر دکھائے۔ پتہ نہیں کونسی خوابوںکی دنیا میں رہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے گھر میں بھی اپنے آپ کو محفوط تصور نہیں کرتا جتنی بری حالت امن و امان کی اس وقت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ نہ کسی کی جان و مال محفوظ ہے اور نہ ہی عزت و آبرو سب کچھ اللہ کے سہارے چلا جا رہا ہے۔
دہشت گردی ختم ہو گئی ہے۔
جتنا مرضی دہشت گردوں کو پنجاب کا واسط دے لیں دہشت گردی کے واقعات بدستور ہو رہے ہیں اور ہم رینجرز کو بھی پورے اختیار دینے کے حق میں نہ ہیں حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کی مہربانی ہے کہ وہ ہر روز دہشت گردی کے واقعات نہیں کرتے ورنہ ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہے ہم اطلاع کے باوجود بھی سکیورٹی کے مناسب انتظامات نہیں کر سکے اور دہشت گرد پنجاب میں ہمیشہ کامیاب ہوئے ہیں اور ایک بھی ایسا واقع نہیں ہے جس میں دہشت گرد ناکام ہوئے ہوں۔