زندگی اور شرمندگی

18 اگست کی صبح کو طاہر اسلم گورا اور بھابھی سعدیہ نے ٹورانٹو ایئرپورٹ پر الوداع کہا اس سے پہلے رات کو طاہر نے اپنے TAG ٹی وی پر ایک شعری نشست کا اہتمام کیا تھا جو میرے یہاں آنے اور شاعر ادیب دوستوں سے ملنے کا ایک اچھا موقع ثابت ہوا۔ کینیڈا میں ہی عرصے سے قیام پذیر اردو انٹرنیشنل والے اشفاق حسین کی صدارت تھی جن سے پرانی یاد اللہ ہے‘ وہ بڑی محبت اور تپاک سے مِلے مُجھ سے ڈھیروں اردو اور پنجابی غزلیں نظمیں سنی گئیں اور میرے اصرار پر سب دوستوں سے کُچھ نہ کُچھ سنا گیا۔ یہاں پر ملنے والوں میں جناب عجائب سنگھ چٹھہ‘ بلوندر چٹھہ‘ ڈاکٹر رضی‘ رشید ندیم‘ عظمیٰ محمود‘ کاشا چودھری‘ طیب رضا‘ آصف جاوید‘ صغیر اسلم اروناپیک اور ان کے شوہر ڈیوڈ جبکہ اپنے اموال نوید اور عارف ثاقب‘ نسرین سید‘ مسٹر اینڈ مسز تپی جھیونہ نے پاک پتن کے تعلق کو نام کا ایسا حصہ بنایا ہے کہ مسٹر اینڈ مسز دونوں اب پتنی بن گئے ہیں۔ ان کے علاوہ شیوم لکھوپال‘ آصف جاوید اور بھابھی سب سے بڑھ کر اپنے لاءکالج والے عرفان ملک جو آج کل پریس میں ٹورانٹو کی خوبرو میئر کو کافی پروموٹ کررہے ہیں۔ طاہر اور بھابھی سے سب دوستوں کیلئے مزیدار اور وافر دیسی عشایئے کا بندوبست کررکھا تھا۔ صبح صبح ٹورانٹو سے وینکور کی فلائٹ پکڑی اور برٹش کولمبیا میں واقع اس خوبصورت شہر میں آ وارد ہوئے۔ یہاں بیٹی ارعوان‘ داماد حشام خالد اور دونوں بچوں زویا اور زین نے ایئرپورٹ سے لیا اور اس دن سے آج کے دن تک خوبصورت سیرسپاٹا کررہے ہیں۔ ہم روز صُبح ناشتہ کرکے گھر سے نکلتے ہیں اور یہاں کے خُوبصورت مقامات دیکھ کر شام کے نزدیک گھر کو لوٹتے ہیں۔ شام بھی کُچھ ایسی کہ آٹھ بجے تک سورج نظر آرہا ہوتا ہے۔ میں تو تھک ٹُٹ کر سو جاتا ہوں اور رات کو پھر انٹرنیٹ کی برکات سے جاگتے ہوئے دوستوں سے گپ شپ لگاتا ہوں کہ اس وقت ان کا دن ہوتا ہے۔ وینکور اور پاکستان کا رات دن کا فرق ہے یہاں رات ہوتی ہے تو اس وقت پاکستان میں دن ہوتا ہے۔میری طاہر کے ٹی وی پر خبروں سے وہاں کے لوگوں کو میر ی آمد کا پتہ چل چکا تھا چنانچہ محترمہ فوزیہ منان اور شہزاد نذیر خان خاص طور پر ملاقات کو آئے۔ فوزیہ منان کا ایک اور تعارف بھی ہے کہ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی اور ریڈیو پاکستان کی فنکارہ عصمت طاہرہ کی چھوٹی ہمشیرہ ہیں اور کافی عرصے سے وینکور میں مقیم ہیں خود بھی پنجابی کہانی لکھتی ہیں‘ پاکستانی سٹیج پر کام کرچُکی ہیں لوگ یہاں بہت محنت کرنے والے اور اپنے اپنے پاکستانی علاقوں کو یاد کرکے ”باں باں“ کرتے ہیں مگر ایسی سہولیات بھری زندگی کو ترک کرنا ان کیلئے شاید مُمکن نہ ہوا اور پھر ان کی اگلی نسلیں تو ویسے بھی کینیڈین ہیں یہاں سب لوگ برابر ہیں‘ سب کو ہی برابر کی شہریت ہے جس کا ہم پاکستان میں خواب دیکھتے ہیں۔ صحت‘ تعلیم‘ روزگار اور ایسے تمام معاملات عادقہ ریاست کے پاس ہے اور پاکستانی ریاست کی طرح وہ اپنے فرائض سے دست کش نہیں ہوگی بلکہ روز بروز نئے عزم کے ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام کرتی ہے۔ یہاں کے وزیراعظم (کینیڈا) کے نوجوان اور نہایت ہی سمارٹ نوجوان ہیں‘ حامی میں ان کے والد ٹروڈو بھی وزیراعظم تھے بلکہ ان کی والدہ کی بائیوگرافی بھی مارگریٹ ٹروڈ کی داستان حیات ہم اردو ترجمے کے ساتھ پڑھ چکے ہیں۔ مارگریٹ ٹروڈ نے خاتون اول ہونے کے باوجود اپنی شخصی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا تھا اسی لئے ان کی اور وزیراعظم جسٹین ٹروڈو کے والد مسٹر ٹروڈو کی یہاں لوگ کافی عزت کرتے ہیں۔میں 18 سے آج کے روز تک کافی پِھر چکا ہوں مگر میری بیٹی ارعوان کا خیال ہے کہ ابھی آپ نے کچھ نہیں دیکھا۔ اس اتوار کو وکٹوریہ جانے کا پروگرام ہے اس کے علاوہ بھی انہوں نے میری مد قیام تک کا شیڈول مرتب کررکھا ہے۔ میری بھی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیر سپاٹا کرلوں‘ کیمرے کا استعمال بھی کافی کرتا ہوں‘ اچھی اچھی تصویریں بنا کر بذریعہ فیس بک دوستوں کو بھی کینیڈا کا دورہ کرواتا ہوں جس پر دوست خوش ہیں کہ بغیر ہنگ پھٹکری لگے ان کی سیر ہورہی ہے۔ بعض لوگوں نے آسٹریلیا میں ساحل سمندر پر لوگوں کے آرام اور اپنے لیٹنے کی تصویروں کی فرمائش کی تھی جس پر میں نے عرض کیا تھا کہ آپ اپنی جان پر کچھ خرچ کریں اور ٹکٹ ویزا وغیرہ لے کر بنفسِ نفیس آکر مشاہدہ کرلیں میں تو سمندر ‘ پرندوں‘ درختوں اور پُھولوں کی تصویریں ہی ارسال کرسکتا ہوں وہ حاضر کرتا ہوں۔ یہاں پر لوگوں کی برابر کی زندگی اور سرکار کی ذمہ دارانہ کاوشوں کو دیکھ کر دل کُڑھتا ہے کہ ہم پاکستان میں اگر چاہتے تو لوگوں کو اس طرح کی زندگی دے سکتے تھے مگر ہمارے ہاں کے ”کارگزار“ حلقوں نے اپنی ترجیحات میں اسے شامل ہی نہیں کیا تھا۔ یہاں لوڈشیڈنگ کے علاوہ بھی کئی چیزیں مِس کرتا ہوں جس کے بارے میں بتانا شرمندہ ہونے کے مترادف ہے۔

ای پیپر دی نیشن