100فیصد شرح خواندگی اور ایجادات کے حصول کا روڈ میپ کیا ہے ؟

پروفیسر ریاض محبوب
اکیسویں صدی میں ترقی یافتہ اقوام اس بات پر متفق ہوچکی ہیں کہ "کسی قوم کے اصل وسائل اس کے افرا دہیں"جنھیں تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنا کر ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے ۔ بے پناہ قدرتی وسائل ، بہترین جغرافیائی پوزیشن اور چار موسموں کی سرزمین رکھنے والے اٹھارہ کروڑ باشندوں کے اندر قدرت نے وہ صلاحیت رکھی ہے جو چند سالوں میں انہیں ایک باوقار قوم بنا سکتی ہے ۔ ہر قوم اپنے نظام تعلیم کے ذریعے اپنی نوخیز نسل کو اپنے مذہب ، تاریخ اور قومی کردار کا شعور دینے کے ساتھ قومی اداروں کو چلانے والے ماہرین اور صنعت و حرفت کو فروغ دینے والے ہنرمند بھی تیار کرتی ہے ۔ نظام تعلیم ہی کسی ملک کے باشندوں کی شیرازہ بندی کر کے انہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیتا ہے۔
اکیسویں صدی کے گلوبل ولیج میں آج پاکستان کو دو چیلنج درپیش ہیں جن سے عہدہ برا ہوئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی قوم کو متحد اور باہم شیروشکر کرکے ہم وہ فضا پیدا کرسکتے ہیں جو قومی وحدت و یکجہتی اور امن کے قیام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج 100فیصد شرح خواندگی کا حصول ہے جس کے لیے چاروں صوبائی حکومتیں بالخصوص وزیراعلیٰ پنجاب کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اہل فکر و دانش نوحہ گری کا رویہ چھوڑ کر کوئی قابل عمل حل پیش کریں جس پر چل کرترقی ، خوشحالی اور امن کا خواب پورا ہوجائے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے دانشور ، ماہرین تعلیم ، اساتذہ اور حکمران گذشتہ ساٹھ سالوں میں ایک ایسا نظام تعلیم قوم کو نہ دے سکے جس سے درپیش چیلنجوں سے نمٹا جاسکے۔
اگر ہم ایک ہی ملک کے ۸۱کروڑ باشندے واقعی اتحادو اتفاق سے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کا سکول ایک بنانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوجائے تو پانچ سال کے اندر ایک نئی پاکستانی قوم نمودار ہوگی جس کے تمام شہری اتفاق و اتحاد کی عملی تفسیر بن جائیں گے ۔ ہم علمائے اکرام کو الزام دیتے ہیں کہ وہ قوم کو چار گروہوں میں تقسیم کر رہے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جدید نظام تعلیم جو جدید سے زیادہ انگلش زندہ نظر آتا ہے ، نے قوم کی تقسیم میں علمائے کرام سے کہیں بڑھ کے حصہ ڈالا ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں انگلش میڈیم کی چھتری تلے درجنوں گروہ تیار کیے جارہے ہیں ۔ یہ تجارتی تعلیمی ادارے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح اشتہاری مہم چلا کر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں ۔ ان رنگا رنگ سکولو ں میں معیار تعلیم کا تعین علم سے نہیں ، بھاری بھرکم فیسوں کے ذریعے کیا جاتاہے ۔ علمائے کرام قوم کی حقیقی رہنمائی کے فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پہل کریں اور آگے بڑھیں ۔ مسجدوں میں ناظرہ قرآن کا عظیم کام جاری رکھیں اور دینی تعلیم کے معیاری مدارس اور یونیورسٹیاں قائم کریں جن کا نصاب باہمی مشورے سے ایک کر دیں۔ میٹرک کے بعد دینی رجحان رکھنے والے طلبہ کو اپنے مدارس میں داخل کر کے قرآن ، حدیث، فقہ اور تاریخ کے پختہ فکرماہرین تیار کریں جو عصری مسائل میں قوم کی حقیقی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں۔
قوم کے بچوں کا مرکز تعلیم ایک ہوجانے سے دوسرا بڑا بریک تھرو یہ ہوگا کہ قوم کا حقیقی ٹیلنٹ سامنے آجائے گا ۔ دور قدیم اور جدید کا حقیقی منظر نامہ یہی ہے کہ جن حکمرانوں نے قومی ذہانت کو دریافت کر لیا اور پھر اسے بروئے کار لے آئے وہ دنیا کے امام بھی ٹھہرے اور دنیا کو تہذیب و شائستگی سکھانے کے علاوہ انواع واقسام کی ایجادات فراہم کرنے کا باعث بھی ٹھہرے ۔ 100فیصد شرح خواندگی کا حصول جو آج کے حکمرانوں کا خواب ہے محض 10سالوں میں شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے روڈ میپ بڑا واضح ہے اور دنیا کی تمام بڑی اقوام اسی پر چل کر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
علم انسانیت کامشترکہ سرمایہ ہے اور زبان علم کومنتقل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ دنیا کی کوئی زبان کافر یا ناپسندیدہ نہیں ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم فرانسیسی ، چائنی، رشین ، جاپانی، کوریائی، عربی، فارسی اور جرمن زبان میں بھی پڑھائے جارہے ہیں ۔ ایم بی بی ایس کا امتحان درجن سے زائد زبانوں میں لیا جارہا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے ممالک ہالینڈ، آسٹریلیا ، ناروے، سویڈن، اور ڈنمارک اپنی اپنی زبانوں میں پی ایچ ڈی تک کروا رہے ہیں۔ دنیا کے تمام ماہرین کا اس با ت پر اتفاق ہے اور UNOکا "یونیورسل ڈیکلریشن آف لنگواسٹک رائٹس"ہرقوم کے بچوں کو اپنی مادری اور قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق دیتا ہے بلکہ ہر ملک کی حکومت سے کہتا ہے کہ اقلیتوں کے بچوں کو بھی ان کی اپنی زبان میں ، اگر وہ چاہیں تو، تعلیم فراہم کی جائے۔ مشرق ہو یا مغرب آج کے گلوبل ولیج میں کوئی ایسا ملک نہیں جو اپنے بچوں کو غیرملکی زبان میں تعلیم دے رہا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی مادری زبان ایک نہ ہونے کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، بروہی، کشمیری اور ا±ردو زبان میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ ا±ردو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اس لیے اسے پہلی جماعت ہی سے بطور مادری زبان استعمال میں لایاجاسکتا ہے۔ لیکن کیا ہرج ہے اگر ہم پرائمری تک علاقائی زبانوں کی سہولت اپنے بچوں کو دے دیں اور چھٹی جماعت سے ا±ردو کو ذریعہ تعلیم بنا کر ان کے لیے علم کی راہیں کشادہ اور آسان کر دیں اور 73 ءکے آئین پر عمل درآمد کا سہرا بھی اپنے سر سجالیں۔
100فیصد شرح خواندگی میں واقعی اگر ہم سنجیدہ اورمخلص ہیں تو دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب بہرحال ہمیں کرنا ہوگا۔اول دنیا کی تمام مہذب اور ترقی یافتہ اقوام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تمام عصری علوم بشمول میڈیکل اور انجینئرنگ کو ہنگامی طور پر اپنی زبان میں منتقل کرنے کا کا م شروع کر دیا جائے ۔ چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور اسلام آباد میں "دارالتراجم"قائم کیے جائیں ۔ ا±ردو سائنس بورڈ جو محدود پیمانے پر کئی سالوں سے یہ کام سرانجام دے رہا ہے اسے وسعت دے کر اور اپ گریڈ کر کے یہ کام چند سالوں میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے ۔ ا±ردو کے خلاف ایک سازش یہ بھی کی گئی ہے کہ بعض سائنسی کتب کا ترجمہ انگلش سے بھی مشکل تر کر دیا گیا ہے ۔ اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا آج موبائل کا ترجمہ کرنے کی ضرورت باقی رہ گئی ہے ؟اصطلاحات میں ضروری MODIFICATIONکرنے ہی سے کام چل جاتا ہے ۔ قرآن کے لفظ ارض کو EARTH، خلیفہ کو KALIPH، امیرالبحر کو ADMIRAL ، اور جبل الطارق کو جبرالٹر لکھنے والوں نے اصطلاحات کا ترجمہ نہیں بلکہ تھوڑا سا ردوبدل کر کے تعلیمی اور قومی غلبے کے مقاصد حاصل کر لئے ہیں ۔ اہل یونان کا علم ترجمہ ہو کر بغداد اور سپین پہنچ گیا اور مسلمانوں نے اس نظری علم کو مشاہدے اور تجربے کی سان چڑھا کر اہل یورپ پر سائنسی علوم کے دروازے کھول دیئے ۔ یہی علم پیرس، لندن، اور واشنگٹن کی زبانوں میں منتقل ہوکر ان اقوام کی لائبریریوں کی زینت بن گیا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علوم و فنون کو دنیا کی تیسری بڑی زبان ا±ردو کے قالب میں ڈھال کر اسلام آباد کی زینت بنایا جائے۔ دنیا میں کہیں بھی چھپنے والی سائنس اور ٹیکنالوجی کی کتاب جاپان کے 10اہل علم صرف ایک رات میں اپنی زبان میں منتقل کر دیتے ہیں جو اگلے روز طبع ہو کر لائبریری اور ایک بک سٹال پر پہنچ جاتی ہے اور اس کا علم جاپانی طلبہ کی براہِ راست دسترس میں آجاتا ہے۔
دوسرا راستہ بھی بڑا واضح اور قابل عمل ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آج دنیا سے رابطہ کے لیے انگلش زبان بہرحال سیکھنا ضروری ہے ، حالانکہ دنیا محض امریکہ اور برطانیہ کا نام نہیں ہے ۔ کیا چین، جاپان، روس ، کوریا، فرانس ، جرمنی، اور 56ممالک پر پھیلا ہوا عالم اسلام دنیا سے الگ کوئی جزیزہ ہے جن سے رابطہ کرنے کی ہمیں ضرورت نہ ہو؟ انگلش اور انگلش میڈیم میں بھی ہمیں فرق ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا۔ اگر انگلش پڑھانا اور سکھانا مطلوب ہے تو اس کے لیے انگلش میڈیم کی ضرورت نہیں ہے اقوام عالم اپنے بچوں کے لیے علم کی راہیں آسان اور کشادہ کر رہی ہیں اور ہم اپنے نونہالوں کو ایک غیر ملکی زبان اور وہ بھی غیر فطری طریقے سے پڑھانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں اور انہیں علم سے متنفر کر رہے ہیں۔
پنجاب ایجوکیشن کمیشن کے تحت پنجم اور ہشتم کے لازمی مگر غیر ضروری اور بغیر تیاری کے شروع کئے گئے امتحانات جہنیں اب انگریزی کا لبادہ بھی اوڑھا دیا گیا ہے ، میں فیل شدہ طلبہ کی تعداد 100فیصد شرح خواندگی کا خواب چکنا چور کر دے گی۔ ہم ترکی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لاہور میں شہریوں کو خوبصورت اور تیز رفتار بسوں کو تحفہ تو دے رہے ہیں ، کیا ہم ترکی کا نظام تعلیم بھی لاہور میں لاسکیں گے ؟ استنبول کے بچے میٹرک تک اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ہمارے نظام تعلیم میں میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم شروع ہوتی ہے ۔ یہ فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ فرسٹ ایئر میں داخلہ کے لیے ایک سال کا "انگلش لینگوئج کورس"لازمی قرار دے دیا جائے۔ دنیا کی کوئی بھی زبان چھ ماہ سے ایک سال میں سیکھی اور سکھائی جاسکتی ہے ۔ دنیا سے رابطہ انڈر میٹرک نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔ یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور قوم کا ہر بچہ اور بچی میٹرک تک تعلیم بھی حاصل کر لے گی۔ انگلش زبان کا بیرئیر ہٹانے سے پاکستانی طالب علم میٹرک کا امتحان 15سال کے بجائے 13سال میں پاس کر لے گا۔
زبان محض ذریعہ تعلیم نہیں بلکہ اپنے تہذیبی اور عملی ورثے کی محافظ بھی ہوتی ہے ۔ قوموں کی زندگی میں زبان اور لباس زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتے ہیں ۔ دوسرں کی زبان اور لباس اختیار کرنے والی قومیں بہت جلد اپنے تہذیبی ورثے اور قومی شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔ آج نوجوان نسل کے بدلتے رنگ بدیسی زبان کے تہذیبی اثرات کا اظہار ہیں۔

ای پیپر دی نیشن