ہمارے غریب شریب وزیر اعلیٰ بڑے شاندار پروٹوکول میں اپنے گائوں پہنچے وہ کسی دوسرے گائوں میں جائیں گے تو پروٹوکول نہیں لیں گے۔ اپنے گائوں میں تو ذرا ’’ٹور شور‘‘ ہونا چاہئے۔ کئی گاڑیوں کے کارواں کے ’میر کارواں‘‘ کے طور پر اپنے لوگوں میں بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ انہیں پھولوں سے لاد دیا گیا۔ وزیراعلیٰ امیر کبیر ہو یا غریب شریب اس کے لئے بھی وہی کچھ ہو گا جو ہوتا آ رہا ہے۔
برادرم رانا ثناء اللہ نے ا چھی بات کی ، انہوں نے کہا عمران خاں کے لئے ذاتی طور پر ’’تنقید‘‘ نہیں کی جاتی ۔ کسی فرد پر نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم پر کی جاتی ہے۔ پہلے وہ عمران خان تھا۔ اب وزیراعظم عمران خان ہیں۔ آجکل صرف وزیراعظم کہا جائے تو اس سے مراد ہی یہی ہو گی کہ عمران خان کے لئے بات کی جا رہی ہے۔ پہلے وہ لوگوں سے ملتے جلتے نظر آتے تھے۔ بے تکلفی سے زندگی بسر کرتے نظر آتے تھے۔
بڑے دنوں کے بعد سعدیہ قریشی کا کالم نظر آیا۔ عنوان ہے ’’خوابوں کی ماند پڑتی تازگی‘‘ سعدیہ کے کالم کا نام ’’امکان‘‘ ہے۔ وہ کسی اور ہی تخلیقی علاقے کی لکھاری ہیں۔ مجھے اپنا ایک جملہ یاد آ رہا ہے۔ کالم نگاری سالم نگاری ہے۔
انہوں نے حلف اٹھایا تو کہا کہ میں عمران احمد خان نیازی حلف اٹھاتا ہوں کہ پاکستان کو خطۂ عشقِ محمدؐ بنائوں گا۔ چلیں صرف خطۂ عشق کہہ لیں۔ بات ایک ہی ہے۔ مگر یہ کیا کہ خاتون اول عمران سے پہلے تقریب حلف برداری میں پہنچیں؟ کیا اس کے لئے بھی انہوں نے استخارہ کیا تھا۔ یہ جملہ میں نے کسی ان دیکھے امکان کے پیچھے چھپ کر لکھا ہے۔
میں بشریٰ بی بی کے لئے عزت رکھتا ہوں…وہ کئی رنگوں کے پردوں میں چھپی ہوئی تھیں۔
لوگ صرف عمران خاں کو ’’عمران خان‘‘ کہا کریں۔ عمران خان نیازی نہیں کہنا چاہئے یہ عجب بات ہے کہ میانوالی میں بھی عموماً نام کے ساتھ نیازی نہیں کہا جاتا۔ صرف خان سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔ عمران نے کبھی نیازی اپنے آپ کو نہیں کہلوایا۔ ایک بار شہباز شریف نے میرے سامنے ان کے لئے عمران خان نیازی کا لفظ استعمال کیا تو میں نے کہا کہ وہ نیازی اپنے نام کے ساتھ لکھنا پسند نہیں کرتے۔
پہلی باپردہ خاتون اول نے کہا کہ انشا اللہ عمران خان عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے۔ تقریب حلف برداری میں اُن سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آج میں خوش نہیں ہوں، ڈری ہوئی ہوں‘‘ خوشی کے اندر بھی ایک ڈر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اللہ ڈرنے والوں سے پیار کرتا ہے۔ ڈرنے والا ڈرانے والے سے بہت افضل ہوتا ہے۔ ڈرانا صرف اللہ کے لئے خاص ہے۔
عمران بھی آجکل ڈرے ہوئے ہیں۔ مگر عمران کے ڈر اور بشریٰ بی بی کے ڈر میں فرق ہے۔ اس کی وضاحت پھر کبھی کروں گا۔ عمران کا ڈر بشریٰ بی بی ہی ختم کر سکتی ہیں۔ بشریٰ بشارت دینے والی کو کہتے ہیں تو کوئی بشارت عمران کیلئے اور پاکستانیوں کیلئے جب دونوں کیلئے ایک ہی بشارت ہو گی تو بات بن جائے گی۔
عمران خان سنا ہے گھر سے ہیلی کاپٹر میں دفتر جاتے آتے ہیں۔ وزیراعظم بننے سے پہلے انہیں یقین تھا کہ مجھے کوئی خطرہ نہیں۔ اب شک والی کسی بات نے گھیرا ہوا ہے وہ کچھ کچھ خاموش رہنے لگے ہیں۔ پہلے وہ جلسے کرتے تھے، تقریریں کرتے تھے ا نہوں نے ’’ نقاب‘‘ کیوں اوڑھ لیا ہے۔
بشریٰ بی بی سے درخواست ہے کہ انہیں کوئی بشارت دیں تاکہ ان کے دل سے ڈر نکلے سب کچھ تو آدمی کے اپنے پاس ہوتا ہے جو کچھ بشریٰ بی بی کے پاس ہے کسی کے پاس نہیں ہے۔
پہلے عمران خان کو یقین تھا اب کسی شک نے انہیںگھیرا ہوا ہے عمران خان سے گزارش ہے کہ باہر والوں سے نہ ڈریں اپنے اندر والے سے ڈریں مگر یہ کیا کہ وزیر صاحب فیاض الحسن چوہان بھی کچھ کچھ ڈرے ہوئے ہیں یہ کیوں ہے کہ ہر شخص ڈرا ہوا ہے۔ ایک بہادر شخص ڈاکٹر بابر اعوان ساتھ ہے تو پھر کس بات کی فکر ہے۔
جسے کچھ مل جاتا ہے وہ ڈر جاتا ہے ہمارے پاس کچھ نہیں تو ڈرنے والی کوئی بات نہیں۔ کہتے ہیں کہ جب سب ڈرے ہوئے ہوں تو ڈر ختم ہو جاتا ہے مگر ہمارا ڈر کس قسم کا ہے؟ شادی سے پہلے بشریٰ بی بی عمران خان کی روحانی پیشوا تھی، روحانی ہونہ ہو ہر بیوی اپنے شوہر کی پیشوا تو ہوتی ہے۔
بشریٰ بی بی پاکپتن کے صوفی بزرگ بابا فریدؒ کی عقیدت مند ہیں اب عمران خان بھی بابا فریدؒ کے عقیدت مند ہیں۔ عمران خان نے اپنی طرف سے تو بڑی بات کی ہے کہ میں نے بشریٰ بی بی کا چہرہ شادی کے بعد ہی دیکھا ہے پہلے وہ ملتی تھیں تو نقاب میں ہوتی تھیں ورنہ کیا وہ بشریٰ سے شادی نہ کرتے، وہ وزیراعظم کیسے بن جاتے۔
میرے قبیلے کے سردار اور بہت بڑے شاعر منیر خان نیازی نے کہا :
جیہڑیاں تھانواں صوفیاں جا کے لیئاں مل
اوہ دوجہاں دے درد دی تاب نہ سکیاں جھل
اکو کوک فرید دی سجے کر گئی تھل
بہت سی خواتین مجھ سے پوچھتی رہتی ہیں میں کہتا ہوں تحریک انصاف کی شاعرہ ثروت روبینہ سے پوچھ کر بتائوں گا لباس ان کے جیسا ہے ۔
بشریٰ بی بی باپردہ خاتون ہیں، یہ اچھی بات ہے اور دلیرانہ بات ہے مگر آج کے تقاضے کچھ اور ہیں یوں بھی نقاب اور حجاب میں فرق ہے۔ برقعہ تو شہر کی کوئی عورت نہیں لیتی۔ جس لباس میں بشریٰ بی بی تھی صرف وہی تھیں ۔ایسا لباس کہ جہاں بشریٰ بی بی ہوںتو سب خواتین کا لباس انکے جیسا ہو۔
اب تک عمران خان نے اپنے نیا پاکستان کی بات نہیں کی، انہیں انتظار ہے کہ بشریٰ بی بی استخارہ کریں اور عمران خان کو کہیں کہ کوئی بات کریں۔ کوئی رابطہ عوام سے رکھیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان سے مشورہ کریں وہ بہت قابل اعتماد دوست ہیں مجھ سے بھی کوئی اعوان صاحب کا رابطہ نہیں۔ رابطہ دوست کے گھر کی طرف جانے والا راستہ ہے۔
تحریک انصاف کی ثروت روبینہ کا رابطہ پر بشریٰ عمران سے ہے وہ ان کی بہت تعریف کرتی ہیں وہ کبھی کبھی بشریٰ بی بی کو ڈرایا کریں، محبت کا بھی ایک ڈر ہوتا ہے۔