نئی دہلی(آن لائن+اے ایف پی)بھارت میں قومی سطح پر کی جانے والی کارروائیوں کے تحت مہاراشٹر پولیس کی جانب سے نامور صحافیوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے جس میں متعدد افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی گئی۔بھاتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت میں جاری گرفتاریوں کی حالیہ صورتحال کو غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دیا جارہا ہے۔اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ علی الصبح کی جانے والی یہ کارروائیاں ہندو عسکریت پسندوں کے مبینہ طور پر معرؤف صحافی گوری لنکیش کے قتل میں ملوث ہونے کی اطلاعات سامنے آنے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔اس ضمن میں سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ دانشوروں ، وکلاء ، انسانی حقوق کے کارکنوں کی حراست اس بات کی طرف اشارہ ہے حکمراں جماعت میں آئندہ برس ہونے والے انتخابات میں بھارتی وزیراعظم نریندر موودی کی کامیابی کے حوالے سے مایوسی پائی جاتی ہے۔اس حوالے سے جاری ایک بیان میں معروف مصنف ارون دھتی رائے کا کہنا تھاکہ پے درپے حراست کے واقعات حکومت کے لیے خطرے کا باعث ہے کہ مینڈیٹ کھو دینے کے خدشے کے پیشِ نظر وہ گھبراہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔انہوں نے سخت برہمی کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء ، شعرا، دانشوروں اور دلتوں کے حقوق کے لیے کام کرنیو الوں کو مضحکہ خیز الزامات میں گرفتار کیا جارہا ہے جبکہ جو لوگ دن کی روشنی میں ہجوم کی شکل میں تشدد کرتے لوگوں کو خوفزدہ اور قتل کرتے ہیں وہ آزاد گھومتے ہیں، ہمیں بتایا جائے کہ بھارت کس سمت گامزن ہے جہاں قاتلوں کو عزت اورحفاظت دی جاتی ہے۔واضح رہے کہ گرفتارہونے والوں میں کشمیر میں حقوق کی خلاف وزری پر آواز بلند کرنے والے اور انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے سابق سربراہ بھی شامل ہیں۔ارون دھتی رائے کامزید کہنا تھا کہ جو کوئی انصاف کے لیے آواز اٹھا تا ہے اور ہندو اکثریت پر اعتراض کرتا ہے وہ مجرم قرار دے دیا جاتا ہے،یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے بہت خطرناک ہے۔اس حوالے سے تاریخ دان ہربنس مکھیا کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ فاشزم نہیں تو پھر اور کیا ہے‘؟۔انہوں نے بتایا کہ قبائلیوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن سدھا بھردواج کو دہلی میں ان کی رہائش گاہ سے لے جایا گیا۔اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے دانشور ان کارروائیوں کیخلاف سراپا احتجاج ہیں اور ہم تشویش میں مبتلا ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ معروف سماجی کارکن اور دنشورکی گرفتاری کا مقصد حکومت کی جانب سے انصاف کے لیے آواز اٹھانے والوں میں خوف و دہشت پھیلانا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے گرفتار انسانی حقوق کے 5 کارکنوں کو پولیس کی تحویل کے بجائے گھروں میں نظر بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ مذکورہ کارکنوں کی گرفتاری پر پورے ملک میں مذمت کی گئی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی تنقید کرنے والوں کو خاموش کرانا چاہتی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کارکنوں کی اشتعال انگیز تقریروں سے تشدد بپا ہوا تھا۔ پولیس انہیں ماؤ نواز انتہا پسندوں کا حمایتی بھی قرار دے رہی ہے کئی سرکردہ دانشوروں نے ان گرفتاریوں کی سخت مذمت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ حکمران بی جے پی تنقید کرنے والوں کو خاموش کرانا چاہتی ہے۔
بھارت: دانشوروں، سماجی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے، متعدد گرفتار، میڈیا کا احتجاج
Aug 30, 2018