کالی مائی کلکتے والی، چل بیٹھی پیپل کی ڈالی، دونوں ہاتھ بجائے تالی…چھومنتر، سم سم کھل جا، جادو گر جہانگیر ترین کی جادوئی آوازیں اور پی ٹی آئی کے لئے جھرلو، پنجاب اسمبلی کے بعد اب صدارتی الیکشن میں بھی وہی جادو کی چھڑی…خود جہانگیر ترین کا بیرون ملک سے کہنا ہے میری ضرورت جب محسوس ہو عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے حاضر ہوجاؤں گا۔ یوں بھی اس وقت ملک بھر میں طلسم ہی طلسم ،کرشمے ہی کرشمے، یوں لگتا ہے جیسے ہم حقیقی دنیا سے طلسمات کی دنیا میں آگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان چھلاوا بنے ہوئے ہیں، ہیلی کاپٹر پر اسلام آباد سے بنی گالا اور بنی گالہ سے اسلام آباد، موصوف بڑی عید کی نماز میں کہیں نظر نہیں آئے، فوٹو جرنلسٹوں سمیت پوری قوم محدب عدسے سے پنڈی، اسلام آباد کا کونہ کونہ چھانتی رہی کسی عید گاہ کی اگلی، پچھلی صفوں میں نہ ملے۔ اس صورت حالات کے بین بین پنجاب اور خیبرپختونخواہ کابینہ کے وزراء کے لئے وزیراعظم کا خود انٹرویو کرنا بھی ایک طلسم ہوشربا رہا۔ جس سے شادمانیوں کے کم اور یاس کے بادل زیادہ گہرے ہوئے۔ یار لوگوں کی امیدیں برنہ آئیں تو دھیمی دھیمی آوازوں میں ہلکا ہلکا سا کرب بھی دھوئیں کی صورت میں اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ خیر یہ تو ہر دور کے سیاسی منظر نامے کا اجمال ہوتا ہی ہے۔ اصل بات یہ کہ تاحال عوام الناس کا مجموعی نپا تلا رویہ سیاسی افق پر صاف نظر آرہا ہے۔ایک طرف توقعات اور دوسری جانب خدشات کے انبوہ دکھائی دیتے ہیں۔ محتاط لوگوں کا کہنا ہے ان دونوں تلازموں کے درمیان ہی کہیں پی ٹی آئی حکومت کی حقیقی کامیابی کا طلسم چھپا ہوا ہے‘ تاحال چہار جانب بچت بچت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ وزیراعظم نے خود اپنے دو وزرائے اعلٰی کو دودو گاڑیاں اور ہر وزیر کو ایک ایک گاڑی الاٹ کی ہے۔لگتا ہے وزیراعظم عمران خان نے ہر چھوٹا بڑا حکومتی معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر ایک جانب اپنے لئے سیاسی آسیب کا جال بن لیا ہے، دوسری جانب اپنے حکومتی کار پردازوں کا اعتماد اور یقین بھی حد درجہ کم کردیا ہے، اسوقت تک ان کی دو اہم تقاریر ایک اسمبلی میں اور دوسری ٹی وی پر سامنے آئی ہیں، جن میں ان کا لب ولہجہ اور موقف نفسیاتی سطح پر آئی ایم نیس یعنی میں، میں کا تفاخر لئے ہوئے ہے۔ صوبائی وزراء کے انٹرویو لیتے ہوئے انہوں نے جس طرح اپنے دو وزرائے اعلیٰ کو ڈمی بناکر ساتھ بٹھایا، وہ بھی بعض لوگوں کے خیال میں شخصی ڈکٹیٹر شپ کے ادوار کی طرح ایک بھولی بسری جھلک لگتی ہے۔ اس وقت تک حکومتی امور کی صورت حالات یہ بھی ہے کہ کل الیکشن سے پہلے جس عمران خان کے سیاسی باطن میں ہر بات اور ہر کام واضح اور شفاف تھا، اب اس نہج پر وزیراعظم عمران خان بہت سے کاموں میں ابہام اور گنجل کا شکار ہیں۔اس سٹیج پر انہیں معلوم ہوا سوچ بچار کے ساتھ منصوبہ بندی بہت آسان ہے اور عملی طور پر ان منصوبوں کو جامہ پہنانا خاصا مشکل کام ہے۔ ادھر عوام الناس کا ایک راست طبقہ جو متوقع تھا کہ نئی حکومت سردست پٹرولیم کی قیمتیں کم کرکے اپنے احسن اقدامات کی شروعات کرے گی، اسے بھی تاحال مایوسی کا سامنا ہے، چونکہ حکومتی مشینری ساری کی ساری زرداری ،نواز شریف اور پرویز مشرف کی باقیات ہے، لہذا گول مول باتیں کرنا اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پھنس کررہ جانا ان کی جبلت میں شامل ہے،سو حکومتی وزراء دبے دبے جذبات کے ساتھ اسی قسم کے رویوں کا برملا تو نہیں مستور اظہار کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے فرمایا ہم نے کب کہا کہ قرضہ نہیں لیں گے،اسی طرح وزیر پٹرولیم کا کہنا ہے ڈیزل کی قیمتیں پٹرول کی سطح پر لائیں گے اور کئی حکومتی کارپرداز تو بہت دور کی کوڑی لا رہے ہیں‘ وہ حالات سنبھالنے کے لئے جو وقت دیتے ہیں‘ وہ کئی سالوں پر محیط ہے‘ تاہم کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ عملی طورپر معاشی اور اقتصادی حالات سنوارنے کے لئے شاید اتنا ہی وقت درکار ہو گا جو موجودہ حکومت کا آئینی دورانیہ ہے۔
متذکرہ بالا حقائق کے باوصف کوئی مانے یا نہ مانے تبدیلی آ گئی ہے۔ کل کا لاابالی سیاسی لیڈر عمران خان جو پارلیمنٹ کے خلاف دشنام طرازی کرتا تھا‘ وزیراعظم بن کر سدھر گیا ہے‘ کل احتساب سڑکوں پر ہوتا تھا‘ آج ان کا فرمودہ ہے کہ احتساب کی سب سے بڑی جگہ پارلیمنٹ ہے۔ ایک آواز آتی ہے بڑی مشکل سے منوائی گئی ہوں‘ پارلیمنٹ کو خود اپنا وجود منوانا آتا ہے‘ یہی جمہوریت کی افادیت بھی ہے۔ دوسری جانب وہی تقاضے‘ وہی آوازیں‘ جو کرنا ہے‘ عوام نے ہی کرنا ہے‘ اس دور میں بھی وہی روایتی جملے اور مکالمے۔ وزیراعظم فرماتے ہیں عوام کو ملکی بہتری کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا اور یہ بھی کہ خیرات اور چیئرٹی میں پیش پیش پاکستانی قوم ٹیکس کم ادا کرتی ہے۔ یہ امر درست ہو گا لیکن ٹیکس کے نام پر غریبوں کا جو استحصال کیا گیا‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ تو بھلا ہو چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا کہ موبائل کارڈ سے بھاری بھرکم ٹیکس ختم کرا دیا‘ یہی نہیں بلکہ پٹرول کے بڑھتے ہوئے نرخوں کو لگام دلائی۔ جو لوگ دولت کی ریل پیل کے باوجود ٹیکس نہیں دیتے یا کم دیتے ہیں‘ ان کی بات اور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس کے نام پر غریبوں کا استحصال کرنے والوں کو بھی لگام دی جائے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں جناب وزیراعظم یہ جملہ جو آپ نے فرمایا کہ ملک کی بہتری کے لئے عوام کو زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا‘ ہر دور کے استحصالی حکمرانوں کا برسراقتدار آتے ہی ہوا کرتا تھا۔ شائبہ یہی ہے کہ یہ جملہ بھی آپ کے نطق پر مشرف‘ زرداری اور نواز شریف کی باقیات نے ہی رکھا ہو گا جو ’’انقلابی‘‘ جماعت آپ کے ساتھ ہے‘ یہ ایسے روایتی جملے آئندہ بھی آپ کے منہ میں ڈالتی ہی رہے گی۔ ذرا یہ بھی تو سوچیے کہ پاکستانی قوم ٹیکس دے دے کر تھک گئی ہے‘ کسی نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا‘ کوئی قرض اتارو سکیم کے تحت ایسے روایتی جملے بولتے رہے اور اب آپ بھی انہی رفتگاں کی باقیات کے کہنے پر وہی روایتی جملے دھرا رہے ہیں۔ خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے‘ وہ فصل گل کہ جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو قوم آپ کا ساتھ دے گی لیکن خدشات یہی ہیں کہ زرداری‘ نواز شریف اور پرویز مشرف کی باقیات ہی آپ کی کھیون ہار ہے۔ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں خدا نخواستہ یہی باقیات آپ کے زول کا سبب بھی بن سکتی ہے‘ لہذا ان پر نظر رکھیے۔ نواز شریف‘ ان کے خاندان اور ساتھیوں کا احتساب کرنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ اپنے ساتھ کھڑے کھیون ہاروں کا محاسبہ بھی کیجئے‘ یہی آپ کے لئے بہتر رستہ ہے۔ جناب وزیراعظم یہ نہ سمجھیے کہ جو لوگ آپ کے ناقد ہیں وہ آپ کو سیاسی منظر نامے سے یکسر ہٹانے کے درپے ہیں‘ ایسا ہر گز نہیں‘ الیکشن آپ نے جیسے تیسے بھی جیتا‘ جہانگیر ترین کی جادوگری بھی ایک طرف‘ یاد رکھیے محض بچتوں‘ ٹیکس کٹوتیوں اور کڑے احتساب کے ذریعے آپ کو وہ اہداف حاصل نہیں ہوں گے جو آپ بازیافت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسے حاصل ہوں گے؟ دو اقدامات سے‘ نمبر ایک سسٹم کی تبدیلی سے‘ جو قانون سازی کے ذریعے یکسو ہو گی اور نمبر دو بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے ہر ایک کے کام کرنے سے۔ اگر ان میں سے آدھے بے کار اور کاہل ہوں گے‘ کوئی کام نہیں کریں گے تو پاکستان کبھی تبدیل نہ ہو سکے گا‘ نئے پاکستان کا خواب یکسر ادھورا رہے گا اور تبدیلی اپنے صحیح معنوں میں روبہ عمل نہیں ہو گی۔ لہذا جناب وزیراعظم آپ کے لئے تین امور ضروری ہیں۔ نمبر ایک زرداری‘ نواز شریف اور پرویز مشرف کی باقیات کی باریک ریشہ دوانیوں سے بچ کر رہیں‘ نمبر دو سسٹم تبدیل کریں اور نمبر تین یہ جدوجہد کریں ہر پاکستانی انتھک کام کر کے قومی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالے۔ آپ کو یہ تینوں کام ضرور کرنے ہیں‘ اگر نہ کئے تو ناکامی وہ سامنے آپ کو کھڑی نظر آئے گی۔