”عمران کی جدوجہد ۔مولانا کی خواہش “

عمران خان نے ۲۲ سالہ جدوجہد کے بعد پاکستان کے ۲۲ ویں وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا ، بلا شبہ راستہ بہت کٹھن تھالیکن جب بندہ عاجزی کے ساتھ اپنے گناہوں کی توبہ کر لے کردار میں پاکیزگی ہو ، عزم ، حوصلہ ، یقین ہو تو صاحبِ ایمان ا للہ تبارک و تعالی پر بھروسہ کر کے منزل کی جانب چل پڑتا ہے اور جب بندہ کامل ایمان کے ساتھ اللہ پر مکمل بھروسہ کر لیتا ہے تو رب پر توکل معجزہ دکھاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ یہ معجزے نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں، اللہ کے نزدیک اسکے بندئے کا سب سے خوبصورت عمل اس کا اللہ پر توکل ہے، اللہ کا فرمان ہے کہ جب میرا بندہ مجھ پر توکل کر لیتا ہے تو پھر میں اپنے گرتے ہوئے بندئے کو بھی اٹھا دیتا ہوں اور جب میں کسی کے مقدر میں عزت لکھ دوں تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو ذلت نہیں دے سکتی ایسا ہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا عمران اپنے کردار کو پاکیزہ بنا کر اللہ توکل پر منزل کی جانب چل پڑا اور پھر رفتا رفتا کارواں بنتا گیا، عمران کا کہنا ہے کہ اسے قوم کا دکھ ہے، اپنے ملک کے حالات پر شرمندگی ہے، وہ ملک اور قوم کیلئے نیک نیتی سے کام کرنا چاہتا ہے ، وہ دنیا کے سامنے ملک کا وقار اور پاکستانی قوم کی عزت کروانا چاہتا ہے ،اسے بڑی شرمندگی ہوتی ہے جب ہمارے ملک کے حکمراں خود عیاشی سے زندگی گزارتے ہیں اور ملک کو چلانے کیلئے باہر کے ممالک سے اُدھار پر پیسہ مانگتے ہیں اور پھر اس پیسے میں سے کچھ رقم لگا کر باقی خطیر رقم اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں تا کہ اپنے مستقبل کے بھی عیش و آرام کو تحفظ دے سکیں اور قوم کو اُن پیسوں کا مقروض بنا کر چل دیتے ہیں جو پیسہ اِن پر لگا ہی نہیں، ہمیں عمران کی اس قسم کی قریباََِ تمام ہی باتوں پر ابتدا ہی سے اتفاق رہا ہے ، ہمارئے اسی اخبار کے آٹھ د س سال سے پرانے کالم بھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہم اس وقت بھی عمران کی سوچ اور نظریہ سے سو فیصد متفق تھے اور ہم نے جب بھی اپنے کالم میں عمران خان کا زکر کیا وہ پاکستان کی ایک امید کے طور پر کیاہم نے اس دور میں عمران خان سے منسوب اپنے ایک کالم کی ابتدا ان اشعار کے ساتھ کی تھی ،" میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے" ©©"مجھ کو جانا ہے بہت آگے حد پرواز سے " عمران کے د عوئے اور ہماری باتیں اپنی جگہ حالیہ حقیقت یہ ہے کہ خدا نے عمران خان کو پاکستان کا وزیر اعظم بنانا تھا سو وہ بن گیااس موقع پر یہ شعر پورا غالب ہے کہ، "مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے " "© وہی ہوتا ہے جو منظو ر خدا ہوتا ہے "۔ اس ملک میں جہاں عمران خان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، وہیں عمران کے مخالفین کی تعداد بھی موجود ہے جن میں عمران کے سیاسی مخالفین کے ساتھ نظرآنے والی نہ نظر آنے والی چنگاری پر ہوا دیتے تجزیہ نگار بھی شامل ہیں جنکی اندرونی طور پر آج بھی خواہش ہے کہ کاش عمران کے سیاسی خیمہ میں آگ لگ جائے سب کچھ جل کر خاک ہوجائے اس کا بوریا بستر گول ہوجائے ،کچھ ایسا ہو جائے کہ عمران کے دعوئے دھرے کہ دھرے رہ جائیں، ان مخالفین کی عمران خان سے دشمنی کی سب سے بڑی وجہ عمران کا ملک سے کرپشن ختم کرنے کا عزم ہے، ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو خود بھی کرپٹ ہیں، جنہیں کرپشن زدہ ماحول سے پیار ہے انکے مفادات اسی میں پروان چڑھتے ہیں، یہ بِسم اللہ بول کر کالے پیسے ہاتھ میں پکڑتے اور پھر اس سے اجناس خرید کر شکر الحمدُ اللہ بول کر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں، اور پھر اسی کالی دولت سے دنیاوی عیاشی کے ساتھ ساتھ حج اور عمرہ بھی کر آتے ہیں، عمران خان کی و زیر اعظم کی حیثیت سے پہلی تقریر سیدھی سادھی لیکن حقیقت سے قریب تھی جو قریباََ ملک اور عوام کو درپیش تمام مسائل کا احاطہ کیئے ہوئے تھی باتیں آسان اور ان پر عمل مشکل ہوتا ہے لہٰذا ان باتوں پر کس حد تک عمل ہوگا یہ وقت بتائے گا، گو کہ یہ کام آسان نہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان باتوں پر کسی نہ کسی حد تک عمل ضرور ہوگا، اگر عمران خان اور انکی حکومت نے کیئے جانے والے وعدوںپر بیس سے پچیس فیصد بھی عمل کر دکھایا تو یہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہوگی، جو یقیناََ ملک کے مفاد میں ہوگی، عمران خان نے اپنے وزیر اعظم کے حلف اٹھائے جانے پر اپنے بھارتی کرکٹر دوست نوجوت سنگھ سدھو کو کیا بلایا بھارت میں ایک طوفان کھڑا ہوگیا جو آج تک جاری ہے کہ سدھو وہاں جا کر جنرل باجوہ کے گلے کیوں لگا، آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان کے برابر کیوں بیٹھا وغیرہ وغیرہ اور سدھو بیچارہ اپنی صفائیاں دے کر تھک چکاہے، بہرحال سدھو کی ہمت کو آفرین ہے کہ اس شخص نے اپنے تئیں پاک بھارت تعلقات کو دنیا کے سامنے دشمنی نہیں دوستی کے انداز میں اجاگر کروایا، جہاں دنیا کے ممالک کے سربراہان کی جانب سے عمران خان کو پاکستان کے وزیر اعظم بننے پر مبارکبادیں دعوت نامے موصول ہو رہے ہیں، وہیں اسلامی جمہوریہ ا یران کے صد ر ڈاکٹر حسن روحانی نے عمران خان کوپاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا انتخاب بہادر اور عزت مند پاکستانیوں کی امنگوں کی علامت ہے، ہمیں ذاتی طور پر انکی جانب سے عمران خان کو مبارکباد دینے کے لیئے جملے میں الفاظ کا چناو پسند آیا، ان لفظوں میں پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کے لیئے بہت کچھ چھپا ہوا تھا، بس غور کرنے کی بات ہے، لیکن غور کرنے کیلئے عقل کی ضرورت ہے جس پر شیطان سوار ہے، اب چلتے ہیں موجودہ حالات کی جانب ہمارئے بے خبر ذ رائع بتا رہے ہیں کہ امریکا کے لیئے نئے سفیر کا انتخاب کر لیا گیا ہے یہ سفیر علی جہانگیر صدیقی کی جگہ تعینات کیئے جائیں گے، بے خبر زرائع کے مطابق پنجاب پولیس کی وردی بھی تبدیل ہونے کو ہے کیونکہ نواز شریف نے بھارت سے اپنی محبت میں پنجاب پولیس کی وردی بھی بھارت کی پنجاب پولیس اور B.S.F. سے ملتی جلتی کر ڈالی تھی جسکی وجہ سے وہ پنجاب کے معصوم عوام کو کشمیری عوام سمجھ کر آئے دن ٹوٹ پڑتی تھی اور ان کو چیر پھاڑ کر کھا جاتی تھی ،جس کی و جہ سے پنجاب کی عوام میں مودی کے دوست میاں برادران کی خاصی دھاگ بیٹھی ہوئی تھی، ہمارا ایک اور بے خبر ذرائع جو اس وقت ہمیں تازہ ترین اطلاعت دینے کی غرض سے تحریک انصاف کے درمیاں گھس بیٹھئے کا کردار ادا کرنے کی ڈیوٹی میں ہیں ، خاص اطلاع دے رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق نہیں، عارف علوی صدر بننے جا رہے ہیں ۔ جسکی وجہ سے امکان جگ مگ جگ مگ کرتا روشن ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو اس بار پھر سبکی رسوائی کا سامنا کرنا پڑجائے گا، اور اگر ایسا ہو گیا تو مولانا کے ارمانوں پر اوس پڑ جائے گی کیونکہ یہ مولانا کی طرف سے آخری انتخامی چال ہے عمران کے خلاف کہ جس میں انکی کوشش ہے کے وہ صد ر پاکستان بن کر ہی کبھی کسی موقع پر عمران کی گدی ناپ سکیں۔۔!

ای پیپر دی نیشن