اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کے بیان حلفی کو مسترد کرتے ہوئے دس سالہ ملکی و غیرملکی جائیدادوں اور بنک اکائونٹس اور بچوں کی تفصیلات کے بارے میں میں نیا بیان حلفی طلب کر لیا ہے عدالت نے پرویز مشرف اور ملک قیوم کو بھی دس سالہ اثاثوں کی تفصیلات کے ساتھ تین ہفتوں میں بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ این آر او کیس کی کی سماعت بروز بدھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے آصف علی زرداری کا بیان حلفی لیک ہونے کا سخت نوٹس لیا اور ریمارکس دئیے کہ آصف علی زرداری کا بیان حلفی میڈیا کے پاس کیسے پہنچا، بیان حلفی کس نے لیک کیا، بلائیں میرے دفتر کے عملے کو یہ کیسے لیک ہوگیا، چیف جسٹس نے وکیل فاروق نائیک سے استفسار کیا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب یہ بیان حلفی آپ نے میڈیا کو دیا؟ جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ میں نے میڈیا کو بیان حلفی نہیں دیا، چیف جسٹس نے دفتر کے متعلقہ سٹاف کو طلب کرلیا۔ پرویز مشرف کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور پرویز مشرف کی جائیدادوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کیں، وکیل نے کہا کہ تصدیق شدہ کاپی نہیں ہے، ای میل کے ذریعے تفصیل پرویز مشرف سے منگوائی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف نے غیر ملکی بیان حلفی جمع کروایا ہے۔ وکیل نے کہا کہ غیر تصدیق شدہ بیان حلفی موصول ہو گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آصف زرداری کا بیان حلفی لیک کیسے ہوا؟ چیف جسٹس نے اپنے عملے کو طلب کر لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آصف علی زرداری کی ایمانداری کا آرٹیکل 62 کے تحت جائزہ لے سکتے ہیں۔پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ عدالت سے کچھ نہیں چھپائیں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت آپ کو کچھ چھپانے بھی نہیں دے گی، عدالت نے کہا کہ پرویز مشرف اپنی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیل بھی دس دن میں دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مشرف کو سنا ہے سعودی عرب سے تحائف ملے، عدالت نے پرویز مشرف کے پاکستان میں موجود اثاثوں کی تفصیلات طلب کرلیں،۔درخواست گزار نے کہا کہ آصف زرداری کے سوئس پیسے کا بھی معلوم کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فی الحال صرف الزامات کا جواب لے رہے ہیں۔جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ آصف زرداری باعزت تمام مقدمات میں بری ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر کوئی الزام غلط ہوا تو آصف زرداری کلئیر ہو جائیں گئے۔ ہم لیڈروں کے سر سے تہمتیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے لیڈروں پر بد اعتمادی نہیں ہونی چاہیے۔ وکیل نے کہا کہ آخر کب ان مقدمات کا خاتمہ ہو گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ان مقدمات کا خاتمہ ہو گا، ابھی فی الحال کچھ نہیں کہہ رہے، وکیل نے کہا کہ مشرف کے ایک اکاونٹ میں 92ہزار درہم ہیں، مشرف کے پاس جیپ مرسیڈیز سمیت تین گاڑیاں ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیا مشرف ساری زندگی کی تنخواہ سے بھی لندن میں فلیٹ لے سکتے تھے؟ پرویز مشرف سے کہیں عدالت آ کر خود وضاحت دیں۔ وکیل نے کہا کہ مشرف کے غیر ملکی اثاثے صدارت چھوڑنے کے بعد کے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیا لیکچر دینے دے کے اتنے پیسے ملتے ہیں؟ کیوں نہ میں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد لیکچر دوں۔چک شہزادفارم ہاوس کس کا ہے؟ وکیل نے کہاکہ چک شہزاد فارم ہاوس پرویز مشرف کا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آصف زرداری سے پوچھ کر آگاہ کریں۔ آصف زرداری تمام ملکی و غیر ملکی تفصیلات دوبارہ سے جمع کرائیں۔ آگاہ کیا جائے کہ کتنے اثاثوں کے بالواسطہ یا براہ راست مالک ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا زرداری کا کوئی سوئس اکاؤنٹ ہے۔ جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ آصف زرداری کے خلاف اپیلیں زیر التواء ہیں۔ آصف زرداری کا بیان حلفی نامکمل ہے۔ آصف زرداری کے بیان حلفی سے شکوک پیدا ہوئے۔ آصف زرداری نے لکھا کہ آج کوئی غیر ملکی اثاثہ نہیں۔ کیا معلوم ہوگا زرداری کتنی کمپنیوں یا اثاثوں کے بینفیشل مالک ہیں۔ اب تو ڈالر سے دنیا بٹ کوائن پر جارہی ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ بٹ کوئن سے معلوم نہیں ہوسکے گا۔کہ دولت کس کی ہے۔ آصف زرداری سے اثاثوں کی ٹرسٹی ہونے کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئیں۔ تمام تفصیلات دو ہفتوں میں فراہم کرنے کی ہدایت کردیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بتایا جائے کہ کیا شہید بی بی کے نام پر اکاؤنٹ تھا۔ آصف زرداری سے بچوں کے غیر ملکی اکاؤنٹس اور بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سوئس حکام کو تو خط نہیں لکھا گیا نہ ہی وہاں کیس چلا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایس جی ایس کو ٹیکنا کیس بغیر دستاویزات چلا ہی نہیں۔ فاروق نائیک نے کہا کہ یہ تو دوسری مرتبہ سزا دینے والی بات ہے۔ آصف زرداری کا ٹرائل نہیں کر رہے صرف سوال پوچھا ہے۔ ہم آصف زرداری پر کسی قسم کا الزام نہیں لگا رہے۔ جو اثاثے کسی اور کو دیے انکی بھی تفصیلات دیں۔آصف زرداری رضاکارانہ طور پر معلومات دیں۔ فاروق نائیک نے کہا کہ کیا سیاست دان ہونا آصف زرداری کی غلطی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ عوام کو علم ہونا چاہیے کتنے لیڈر شفاف تھے اور ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ نے آپکو لانڈری فراہم کر دی ہے۔ کوئی قانون عدالت کو معلومات لینے سے نہیں روک سکتا۔ عدالت نے پرویز مشرف اور ملک قیوم سے بھی گزشتہ دس سال میں اپنے بچوں اہلیہ اور اپنے نام بنائے گئے اثاثوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت تین ہفتوں تک ملتوی کردی ہے۔ سپریم کورٹ میں سرکاری افسران کے زیراستعمال لگژری گاڑیوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں سیکرٹری سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سی ایم ہائوس سندھ میں اٹھارہ لگژری اور دس بلٹ پروف لگثرری گاڑیاں ہیں جبکہ گورنر ہاوس میں ایک بلٹ پروف سات لگژری گاڑیاں ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ سی ایم ہائوس میں اٹھارہ گاڑیوں کا سن کر مجھے شرم آ رہی ہے عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ضرورت سے زائد گاڑیوں سے متعلق کابینہ میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سرکاری افسران کی لگژری گاڑیوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی صوبائی حکومتوں نے غیر مجاز گاڑیوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کر دی رپورٹس کیمطابق پنجاب میں 38,کے پی میں 67,بلوچستان میں 40 گاڑیاں غیر مجاز استعمال میں آتی ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ سندھ کا ہے سندھ حکومت کے زیر استعمال 149 لگژری گاڑیوں پر عدالت کا اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان گاڑیوں کی کیا پالیسی بنائی گئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ گاڑیوں کے پرزے نکال کر فروخت کر دئیے جائیں سیکرٹری سندھ نے بتایا کہ سندھ میں دس سال پرانی گاڑیوں کی نیلامی ہو گی۔149 لگژری گاڑیاں صدر ،وزیراعظم اور دیگر وی آئی پیز کے لیے استعمال ہوں گی ، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پروٹوکول کے لئے 149 گاڑیاں درکار ہیں سیکرٹری سندھ نے کہا کہ 32گاڑیاں مختلف اضلاع کے کمشنرز کے پاس ہوں گی جو وی آئی پیز کے دورے کے لیے گاڑیاں فراہم کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا بلاضرورت گاڑیاں خریدنے والوں کے خلاف ایکشن ہو گا عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ضرورت سے زائد گاڑیوں سے متعلق کابینہ کے پہلے یا دوسرے اجلاس میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ سپریم کورٹ میں ملک بھر کی آبادی کنٹرول کرنے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوام کا شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ زیادہ بچے ہونا اچھا عمل نہیں ہے،رویہ میں تبدیلی نہ آنے کا مطلب ہے کہ آگہی نا قص ہے، آبادی کے معاملہ پر مذہب کی جانب سے کوئی قدغن نہیں ہے۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی، ڈی جی پاپولیشن نے بتایا کہ آبادی کے معاملہ پر فیڈرل لیول پر کوئی بحث نہیں ہے، آبادی محکموں کا سارا بجٹ تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے،آبادی کے حوالے سے آگہی 97 فیصد ہے،آگہی کے باوجود رویوں میں تبدیلی نہیں آ رہی،چیف جسٹس نے کہا کہ رویہ میں تبدیلی نہ آنے کا مطلب ہے کہ آگہی نا قص ہے، ڈی جی کا کہنا تھا کہ آبادی کنٹرول کے معاملہ پر مذہبی مزاحمت کا سامنا ہے،مذہبی سکالرز گراس روٹ لیول پر فیملی پلاننگ مہم نہیں چلا رہے،علما کی بیگمات کو قوانین میں آگاہی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا،چند دن میں آپ کو مسئلے کا حل دینا ہو گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپکا سارا پلان 20 ارب روپے دستیابی سے مشروط ہے،دستیاب وسائل میں رہ کر کام کرنا ہوگا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی اور صوبائی وزراء کو بلائیں اور پالیسی سے آگاہ کریں، ڈی جی پاپولیشن نے عدالت میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ کئی اقدامات کیے لیکن آبادی میں اضافہ نہیں روک سکے، عدالتی نوٹس پر تمام متعلقہ حکام سنجیدہ ہوئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کو بتانا ہو گا زیادہ بچے ہونا اچھا عمل نہیں ہے کیا لیڈی ہیلتھ ورکرز عملی طور پر کام کر رہی ہیں، سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ پاپولیشن کنٹرول کا 94 فیصد بجٹ تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ پانچ سال حکومت میں رہے آپ نے کیا کیا ؟ فواد حسن فواد نے کہا کہ 2010ء کے بعد پاپولیشن کا محکمہ صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے آبادی کنٹرول کرنا حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیئے ملتوی کردی ہے۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں دوہری شہریت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا ہے کہ حکومت اس حوالے سے تجاویز مرتب کرے تو دو ماہ میں دوہری شہریت کے حوالے سے فیصلہ کر لیں گے کیس کی سماعت اٹارنی جنرل کا نوٹیفکیشن نہ جاری ہونے کے باعث غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ مزید برآں سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کا آغاز آئندہ ماہ 10ستمبر کو ہوگا۔ افتتاحی تقریب 10ستمبر کمرہ عدالت نمبر ایک میں ہوگی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بنچ ہفتے کو کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کرے گا، لارجر بنچ میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی بھی شامل ہوں گے۔ دریں اثناء سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کیس کی سماعت بھی آج ہو گی۔