خود نمائی اور خود ستائی نہ سمجھا جائے تو میں یہ دعویٰ کروں گا کہ قبلہ سجاد میر اور میرا قبیلہ ایک ہے۔ شاید یہی سبب رہا ہوگا کہ ان سے پہلے میری ملاقات ان کی شہرۂ آفاق سبز موٹر سائیکل اور اُن ادبی مجادلوں سے ہوئی جن کی ابتدا اولاً مخدوم ِ ادب عالیہ سلیم احمد مرحوم کی درگاہ سے ہوئی پھر جنھوں نے پھیلتے پھیلتے پورے شہر( کراچی) کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ہماری نسل جب صحافت میں آئی کراچی، لسانی تصادموں کی لپیٹ میں تھا جن کی وجہ سے شہر کا رکھ رکھاؤ، تہذیبی بانکپن ،رشتوں ناتوں اور تعلق واسطے کا احترام تبدیلی کی زد میں تھا۔اس تبدیلی کو لسانی عصبیت کا جن بنیاد فراہم کررہا تھا جو آدم بوپکارتا ہوا خون ریزی کو ہوا دے رہا تھا۔یوں سمجھ لیجئے کہ یہ معاملات تھے جن کی وجہ سے اس شہر کے تہذیبی مظاہرکو گہن لگنا شروع ہوگیا۔بدلتی ہوئی ان اقدارکا پہلا اثر اس شہر کے سیاسی اسلوب پر پڑا جس سے بات چیت اور افہام و تفہیم کے طریقے رخصت ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ سیاسی مناقشت کے اظہار کیلئے ڈرل مشینیں استعمال کی جانے لگیں۔ چھیدنے کیلئے جن کی نوزل کو انسانی گھٹنے زیادہ پسند آتے۔ سیاست میں اختلاف کا اظہار جب معروف سیاسی طور طریقوں سے نکل کر جسمانی تصادم تک پہنچ جائے تو روایتی طور پر پولیس بروئے کار آتی ہے لیکن یہاں بگاڑ کچھ اتنا بڑھ چکا تھا کہ پولیس کے بس کی بات نہ رہی ،لہٰذا ان جھگڑوں کو نمٹانے کیلئے فریقین کیلئے کور ہیڈ کوارٹر کراچی کی خدمات کا حصول ناگزیر ہوگیا۔بس، اسی تقریب سے صحافی برادری کے ہر اعلیٰ و ادنیٰ کیلئے آئی ایس پی آر کراچی کے روح رواں بریگیڈئر(جو اس وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے) صولت رضاکے آستانے پر حاضری ضروری ہوگئی کہ خبر وہیں سے نکلا کرتی۔بریگیڈئر صاحب سے ہم جیسوں کا اصل تعارف تو ان کی مقبول عام کتاب کاکولیات کے تعلق سے تھا لیکن یہ بھی تاریخ کا جبر تھا کہ ملاقات کا بہانہ ادب نہ بن سکا۔کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ سجاد میر صاحب سے پہلی ملاقات کسی ایسی جگہ پر ہی ہوئی لیکن تعلق اس لیے نہ بن سکا کہ میںیک طرفہ طور پر ان سے جو تعلق محسوس کرتا تھا، اس کی انھیں کوئی خبر نہ تھی۔ان سے باضابطہ تعلق تو استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعودکی دین ہے جن کے دولت کدے پر افطاری کی ایک تقریب میں ان سے تعارف ہوا ، پھر اللہ اس سلسلے میں برکت پیدا کرتا چلا گیا۔
مجھے یہاں ادب اور صحافت کے تعلق باہم کی بحث میں نہیں پڑنا لیکن اس حقیقت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ ادب اور صحافت دو الگ الگ شعبے ہیں لیکن چونکہ ہماری صحافت کی ابتدا جن بزرگوں کے ہاتھوں ہوئی، وہ بنیاد ی طور پر ادیب تھے۔اس لیے اردو صحافت کو ادب سے مکمل طور پر علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا لیکن گزشتہ چند دہائیوں کے دوران میں جب صحافت نے صنعت کی صورت اختیار کی تو اسکی ادب سے مستقل جدائی کے امکانات بھی پیدا ہوگئے ۔
اب ان دو اصناف کے فراق کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اہل صحافت کے املا اور تذکیر و تانیث یعنی زبان ہی کا کباڑا نہیں ہوا بلکہ دہن بھی بگڑنے لگا ہے۔اس کا دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ صحافت انسانی معاشرے کا جزو بننے کے بجائے ایک مشینی کارخانے کا پرزہ بن چکی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ آج کا صحافی باقی تو سب کچھ بن چکا ہے لیکن صحافی شاید نہیں رہا۔اس کاسبب میرے خیال میں یہ ہے کہ ادب سے ناتا ٹوٹنے کے بعد معاشرہ اور خصوصی طور پر صحافی اس تہذیبی روایت سے کٹ کر رہ گئے جس کے ذریعے انکی ادبی، روحانی اور ثقافتی تربیت ہوا کرتی تھی۔
مخدومی سجاد میر نے اپنے ایک تازہ کالم میں الفاظ اور خیالات کی جنگ کے پیچیدہ موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے محمد حسن عسکری مرحوم کی پیروی میں بڑی حسرت سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ کاش وہ بھی چند ایسے قاعدے مرتب کرپاتے جن کی مدد سے اہلِ دل دور جدید کے بہت سے مغالطوں کو سمجھ پاتے۔یہ غنیمت ہے کہ میر صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں اور وہ کبھی فرصت پاکر اور کسی نہ کسی مغالطے سے تحریک پاکر ایسے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں لیکن مجھے مودبانہ گلہ ہے کہ وہ ان اہم معاملات پر دوچار کالموں سے آگے بڑھ کر کسی مستقل تصنیف کا خیال کیوں نہیں فرماتے۔ اگر وہ ایسا کریں تو سچ جانئے، ایک بڑی خدمت انجام دے ڈالیں۔ میں اپنی بات ایک مثال سے واضح کروں گا۔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے اکثر دوستو ں کو فلسفے اور تصوف سے عموماً دلچسپی ہوا کرتی ہے لیکن روزگار کے جھمیلے اور پرانی روایت کا ادق اسلوب اسکی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے لیکن جب میر صاحب زندگی سے بھرپور اپنے جیتے جاگتے اسلوب میں ایسے موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں تو موضوع پانی ہوجاتا ہے۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ تصوف کے بہت سے پیچیدہ اسرار میر صاحب کے کالموں کے ذریعے ہی میری سمجھ میں آسکے لیکن کالم تو رات گئی بات گئی ہوتے ہیں،ان سے مستقل استفادے کی سبیل تو یہی ہوسکتی ہے کہ انھیں کتابو ں میں محفوظ کردیا جائے ۔ کیا میر صاحب ہم پیاسوں کی یہ پیاس بجھانے کیلئے مائل بہ کرم ہوں گے؟