آزادی پسندوں کی سفارت کاری

آج اسلامی نیا کے بہت سے خطوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، مظلوم آزادی پسندوں کی تحریک کہیں بھی ہو ہماری ہمدردی بلکہ مدد کی مستحق ہے مگر مسلمان آزادی پسند چونکہ بہت سی نسل پرست، سامراجی اور لوٹ مچانے والوں کی زد میں ہیں اور کوئی بھی ان کا پرسانِ حال نہیں ہے۔۔ اس لیے ان کی ترجمان اور سفارت کاری خصوصی ذکر اور توجہ کی متقاضی ہے، ان میں کشمیر اور فلسطین کے آزادی پسند مسلمان دنیا بھر کے انصاف پسندوں اور انسانی ہمدردی کے علمبرداروں کی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں لیکن عرب دنیا کے ڈکٹیٹر فلسطینیوں کے نام پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند پاکستان کے اقتدار پرستوں ، لوٹ مار کرنے والے وڈیروں اور مشرق و مغرب کے سامراجیوں کی خوشامد اور غلامی پر اترانے والے اور باہم دست و گریبان ہو کر اپنے غریب عوام کو بے وقوف بنانے پر کمربستہ ’’لیڈروں‘‘ کے پھندے میں کراہ رہے ہیں!
ایسے میں مقبوضہ کشمیر کے ان آزادی پسندوں کی ترجمانی اور سفارت کاری کون کرتا جو صدیوں کی بیماری سے نجات پا کر پھر سے شاہ ہمدان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو چکے ہیں اور سری نگر سے میرے ایک شاگرد کے قول کے مطابق برف سے آگ بن چکے ہیں تو میں نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ گویا یہ کشمیری آزادی پسند تو ’’برفانی آگ‘‘ بن چکے ہیں اس پر وہ زندہ دل بہادر جوان خوش ہو کر اور ایک چھلانگ مار کر اپنے ساتھیوں سے جا ملا ہو گا۔ اس طرح گویا اب وہ ’’برفانی آگ‘‘ اور دہکے گی اور کسے معلوم کہ نریندر مودی (جسے کیرالہ اور گجرات کاٹھیا واڑ کے نسلاعرب مسلمان ’’نرا مودی‘‘ بولنے لگے ہیں) نے برہمن بنیا کے نام نہاد سیکولر اور جمہوری آئین کی اپنے ہاتھ سے خود دھجیاں اڑا کر اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے برہمن بنیا کو بری طرح ہی نہیں پوری طرح ننگا کر دیا ہے، ایسے میں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم کا کشمیریوں کی سفارت کاری کا عزم بظاہر بے اندازہ خوش آئند، بروقت اور بہت بڑی ذمہ داری اٹھانے کے مترادف ہے، دراصل کشمیریوں کا یہی وہ حق ہے جس سے ہم ستر سال سے کھیل رہے تھے ، حق دار اور حق پرست کے حق کی ترجمانی اور سفارت کاری سے کھیلتے رہنا بہت بڑا قومی جرم تھا! لیکن کشمیری آزادی پسندوں کی سفارت کاری پہلے سے آسان بھی ہو گئی ہے مگر پہلے سے زیادہ مشکل بھی ہے، آسان تو اس طرح ہے کہ بھارت کے نسل پرست، گھمنڈی اور احمق (نرے موذی) نے اپنے بھارت کی تکہ بوٹی کا کام آسان بنا دینے کے ساتھ کشمیریوں کی ترجمانی اور سفارت کاری میں بھی غیر متوقع سہولت بھی پیدا کر دی ہے تاہم اگر ہماری سفارت کاری بھی گزشتہ ستر سالہ زبانی کلامی کھیل تک محدود ہی رہی تو یہ ایک ایسا جرم ہو گا جسے نہ خدا معاف فرمائے گا اور نہ کبھی کشمیری معاف کریں گے۔
اب ہماری سفارت کاری جارحانہ ہو گی اور بیک وقت اس کے دورخ ہونگے ایک رخ تو مظلوم مگر برفانی آگ بن جانے والے کشمیری ہونگے، نرے موذی نے انہیں جس باڑے میں بزعم خویش جکڑ دیا ہے وہ دنیا کے ہر آزادی پسند اور غیرتمند انسان کو ہر روز صبح شام درد مندی کی آواز اور آنسوئوں کے ساتھ بتانا اور دکھاتے رہنا ہو گا اور یہ بتاتے رہنا ہو گا کہ برفانی آگ کے شعلے کتنے بلند ہو رہے ہیں اور وہاں برہمن بنیا کس طرح بھسم ہو کر بجائے گنگا جمنا کے بحیرہ عرب میں کس طرح غرق ہو رہا ہے۔ اس کا دوسرا رخ اس بھارت پر مرکوز ہو گا جس کا تکہ بوٹی کروانے کا رستہ برہمن بنیا کی نسل پرستی، گھمنڈ اور خر دماغی کے اعلیٰ نمونے موذی نے خود فراہم کر د یا ہے، دنیا کو بتانا ہو گا کہ نسل پرست برہمن اکھنڈ بھارت کا جو نشہ لیے پھرتا ہے وہ ہٹلر سے بھی زیادہ خطرناک ہے، اسی طرح ہندو سمیت برصغیر خصوصاً بھارت کے اندر پائے جانے والے ہر مذہب، ہر نسل اور ہر مکتب فکر کے لوگوں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ پاکستان پھر سے برصغیر میں وہی فضا، وہی امن و آشتی اور وہی انسانی برادری اور برابری لانے کا پابند ہے جو ا یک ہزار سال تک مسلمان حکمرانوں نے سب کے سامنے پیش کیا تھا! کشمیریوں کے لیے ہماری سفارت کاری کی بنیادیں اور نتائج یہی ہونے چاہئیں!! لیکن یہ ہرگز نہیں بھولنا کہ گزشتہ ستر سالہ زبانی کلامی سفارتکاری کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی!

ای پیپر دی نیشن