اسلام آباد (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ میں پی ایم ڈی سی بل کے حوالے سے کمیٹی کی رپورٹ اور بل پیش کرنے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا جس کے بعد حکومت نے پی ایم ڈی سی کا بل واپس لے لیا۔ جمعرات کو سینٹ اجلاس کے دوران پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل بل کے حوالے سے کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہاکہ ہم یہ رپورٹ پیش ہونے نہیں دینگے، کوشش کی گئی تو یہاں ہنگامہ برپا ہوجائیگا۔ اعظم سواتی نے کہاکہ ہم اس بل کے حوالے سے اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ اپوزیشن نے سینیٹر عتیق شیخ کوپاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے سے روک دیا۔ سینٹ نے ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا بورڈ ترمیمی بل 2019متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ حکومت نے وفاقی ملازمین ہاوسنگ اتھارٹی بل واپس لے لیا۔ ایوان بالا میں پی ایم ڈی سی آرڈنینس2019ء کومسترد کرنے کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ قرارداد پی پی پی سینیٹر شیری رحمان کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ قائد ایوان شبلی فراز کا سینی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ایوان میں دورخی پالیسی نہیں چلے گی، پی ایم ڈی سی آرڈنینس سے متعلق کمیٹی رپورٹ پر سب کے دستخط ہیں، پی ایم ڈی سی سے پہلے بھی اور اب بھی مفادات وابستہ ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز کے ریمارکس پر پی پی سینیٹرز نے احتجاج کیا۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ حکومت پی ایم ڈی کو قابو کرنا چاہتی ہے۔ حکومت ہیلتھ سیکٹر پر قابو پانا چاہتی ہے، افسوس کی بات ہے کہ یہاں مفادات کی بات کی جارہی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہاکہ ایوان کا ماحول خراب نہ کریں، اگر ضروری سمجھا تو اس بل کو کمیٹی میں بھیجنے پر غور کرینگے، قائد یوان اور قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے بعد فیصلہ کرینگے۔ راجہ ظفرالحق نے کہاکہ کشمیر کے عوام نے جو پاکستان سے توقع رکھی تھی وہ پوری ہو رہی ہے۔ امریکہ کے صدر نے ابتدائی زمانے میں کہا کہ مجھے کہا گیا کہ ثالثی کا کردار ادا کرے، مودی اور امریکہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتے ہیں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ملکر اس معاملے کا حل نکالیں۔ انہوں نے کہاکہ جہاں ہم امریکہ اور اسلامی ممالک سے گلہ کرتے ہیں وہیں چین اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ترکی کے صدر نے جو برملا بیان دیا اس پر بھی خوشی ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے بھی ان مسلمانوں کی امداد کیلئے اپنا حصہ ڈالا، بنگلہ دیش کی بھی خواہش ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مزید بہتری لائی جائے۔ وزیر خارجہ ہائی کمشنر کی تعیناتی کے مثبت کردار ادا کریں۔ قائداعظم کے ویژن کو آج ان کے مخالفین بھی قبول کر رہے ہیں۔ شیری رحمن نے کہاکہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظفرآباد میں عید نماز پڑھی، بھارت جمہوریت اور سیکولر نہیں رہا وہ انتہا پسندی کی طرف چلا گیا ،عالمی طاقتوں کی مقبوضہ کشمیر کے معاملے مجرمانہ خاموشی ہے ،مقبوضہ کشمیر میں ریاستی تشدد جاری ہے زور کی طاقت پر معاملات نہیں چلتے ،کشمیر میں حیوانوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ کشمیر میں بات لاک ڈاؤن سے نکل کر کرفیو تک پہنچ چکی ہے،کشمیر اس وقت پوری دنیا کا اوپن ائیر جیل بن چکا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود کشمیر کے معاملے پر قوم یکجا ہے کشمیریوں کو پاکستان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اپنے مقصد کے حصول کے لئے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کشمیر کے حوالے سے سیاسی جماعتوں اور قوم کی جانب سے واضح پیغام گیا ہے۔ کشمیریوں اور پاکستانیوں نے بھارتی اقدامات مسترد کر دیئے۔ بھارت میں بھی مودی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر بھارتی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نہیں۔ بھارت دنیا سے حقائق چھپا رہا ہے دنیا کو مسئلہ کشمیر سے آگاہ کر دیا۔ کشمیری قوم تنہا نہیں نہ ہے پاکستان اور عوام ان کے ساتھ ہیں۔ بھارت نے سیکیورٹی کونسل اجلاس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ سلامتی کونسل میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ دو فریقوں نے 5 اگست کے بھارتی اقدام کو مسترد کر دیا نہ حکومت نہ اپوزیشن اور نہ اکیلا اور وہ یہ مسئلہ اٹھا سکتے ہیں۔ اکٹھا ہونا ہے پوری قوم کو تو ٹھوس پیغام جائے گا قوم کو مایوسی کی ضرورت نہیں۔ امتحانات آتے ہیں دشمن نے ہمارے معاشی حالات دیکھ کر یہ چال چلی جذبہ ہو تو 313 حاوی ہو جاتے ہیں۔ سفارتی سطح پر فیصلہ ہوا تھا کہ ہمیں اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہئے۔ مودی کا فاشٹ چہرہ بے نقاب کریں گے۔ گاندھی‘ نہرو کا بھارت دفن کر دیا گیا ہے۔ اگر مودی کی یہ سوچ ہے تو اکھنڈ بھارت کی سوچ افغانستان ایران تک ہے وہ پاکستان کو قبول نہیں کرتے وہ آزاد کشمیر گلگت کو کیسے قبول کریں گے۔ مودی کا کہنا ہے کہ ہم کس سے بات کریں یہ ناٹک ہے۔ بھارت کو غلط فہمی ہے کہ پاکستان جھک جائے گا یا دباؤ میں آ جائے گا۔ کان کھول کر سن لو پاکستان نہیں جھکے گا کشمیریوں کو آواز پہنچ جائے کہ آپ تنہا نہیں حملہ صرف مقبوضہ کشمیر پر نہیں ہوا پاکستان پر اس کی نظر ہے۔ میری رائے ہے اپوزیشن ممبران سے کام لیا جا سکتا ہے یہ مسئلہ حکومت یا پارٹی کا نہیں پاکستان کا ہے۔سینٹ میں انسانی حقوق کے تحفظ، جمہوری استحکام اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لئے بین الاقوامی پارلیمانی کانگریس کے قیام کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی۔ (سی پیک) سمیت 8قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس پیش کردی گئیں۔