ماہِ محرم پیغامِ غم لایا ہے، چشمِ نم لایا ہے۔ اسی کے پیش نظر عاشقین میں سے ایک عاشق ’’مصحفِ غم‘‘ لایا ہے۔ ’’مصحفِ غم‘‘ شاعرِ اہلبیت اطہار، کرامت بخاری کی حال ہی میں منصہ شہود پہ آنے والی شعری تصنیف ہے، جو غم میں لتھڑی ہے اور جس کے مصرعوں سے الم نچڑ رہا ہے۔ میرے تئیں ’’مصحفِ غم ‘‘ ایک امانت ہے جو شاعر کو بارگاہِ امام عالی مقامؓ سے عطا ہوئی ہے جو عشاقِ اہلبیت کے سینوں کو جل تھل کر رہی ہے۔ یہ امانت سینے میں درد بن کر دھڑکتی ہے اور آنسو بن کر آنکھ سے ٹپکتی ہے۔ بعینہ یہی ہوا۔ امانت گراں کو سینے میں محسوس کیا تو آنکھیں چھم چھم برسیں، زبان لرزنے لگی، ہاتھ کپکپانے لگے، دل رندھنے لگا۔ گویا غم ہرا ہوا، جس سے باطن اُجلا ہو گیا۔ غمِ حسینؓ امانت ہی تو ہے جو ہر ایک غلام کی متاعِ حیات و ممات ہے۔ یہ غم، یہ دولت مقدر ہو جائے تو آدمی دیگر سبھی آلام سے بری کر دیا جاتا ہے۔ بہ زبانِ شاعر ’’اک غمِ کربلا کے ہونے سے، باقی غم سے نجات ہوتی ہے‘‘۔ نیز غمِ حسینؓ میں دل کا دھڑکنا، کرامت بخاری کے شعر میں دیکھئے:
؎دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے لمحہ لمحہ
دل دھڑکتا ہے کہ شبیرؓ کا غم کرتا ہے
میں نے یہ احساس ’’مصحفِ غم‘‘ کے شاعر کی نذر کیا تھا: ’’آپ کا کرب قُرب کا حامل ہے۔ کرب دَر کرب اور قُرب دَر قُرب کی یہ داستان، امام عالی مقامؓ کی بارگاہِ اقدس میں حاضری و حاضری کا عین سبب ہے‘‘۔ حق بھی یہ ہے کہ جسے یہ غم عطا ہو گیا، اس کی حاضری ہو گئی۔
یہ خانوادہٗء رسول کا غم ہے۔ یہ غم مکرم ہے اور نجات کا ضامن ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ درد اور قُرب سے مزین ایک لمحے کا،آپ پر ظہور ہو اور آنکھ نم ہو جائے۔ اس آنکھ کی نمی کو سنتِ نبویؐ گردانیے۔ یہ لمحہ کسی کو صدیوں، عشروں میں نصیب ہوتا ہے اور اگر کرم ہوجائے تو زندگی میں یہ بار بار آتا ہے، تب ہر لمحہ لمحہ ء قُرب و وصال ہوتا ہے۔ اس لمحے کے میسر آنے کی دعا کرنی چاہئے۔ آنکھ کی یہ نمی حاضری و حضوری کی ضمانت ہے۔ دل گریہ کرے، چشم تر ہو جائے تو لوحِ دل پہ محبت اور عشق کی داستان رقم ہوتی ہے، جس سے عشقِ حسینؓ کے فوارے پُھوٹتے ہیں جو کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ کائنات کا عشق، علی ؓ کے عین میں آ کر سمٹ جاتا ہے۔ غلامانِ علیؓ اس پہ خود کو وار دیتے ہیں اور اس اسم پہ بِک جاتے ہیں۔ کرامت بخاری کو اس نامِ مبارک کی کرامت کا بہ خوبی اندازہ ہے:
ہر جور ہر ستم میں پکارا علیؓ علیؓ
انسانیت کا آخری نعرہ علیؓ علیؓ
یہ اسم اسمِ اعظم ہے انسان کے لیے
دنیا و آخرت کا سہارا علیؓ علیؓ
عشق کی تکون علیؓ کی تکون میں ضم ہے۔ عشق کے عین کو علیؓ کے عین سے جِلا ہے۔ عشق کے سَہ حرفی لفظ سے مراد ہے: علیؓ شرطِ قْرب ہے۔ جس کے سینے میں قُرب ہو، اسے علیؓ مل جاتا ہے اور جسے علی ؓ مل جائے، اسے قُربِ حق میسر آ جاتا ہے۔ یہ راہِ عشق دیگر سبھی راہوں سے یکسر جدا ہے۔ یہ کربلا و نجف کا سفر ہے۔ اس سفر کے ضابطے مختلف ہیں۔ یہاں سَر جھکانا نہیں، کٹانا پڑتا ہے۔باطل کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑتا ہے۔ اس جدا راہ کے پیش نظر، کسی آن کرامت بخاری کے الفاظ قرطاس پہ نقش ہوئے تھے:
؎ہمیشہ سے علیؓ والوں کا رستہ
کبھی کوفہ کبھی کربل رہا ہے
نامِ حسینؓ و ذکرِ حسینؓباعثِ تسکین ہے۔ اس میں سکینہ ہے۔ذرا غور کرنے پہ گویا یہ بات القا ہوئی کہ حسینؓ کی ’’سین‘‘ میں سکون ہے، سکوت ہے، سجدہ ہے اور عجب سجدہ ریزی ہے، سپہ سالاری ہے، سربراہی ہے، سرفرازی ہے، سربلندی ہے۔ اس ’’سین‘‘ میں کہیں سوگ ہے، سبیل ہے، سلام ہے، سلامتی ہے اور کہیں ساون کی جھڑی ہے، سمندر ہے، سیلاب ہے جو صاحبانِ درد کو سیراب کرتا جا رہا ہے، ہرساعت بڑھتا جا رہا ہے: بہ زبان کرامت بخاری:
؎ذکرِ شبیرؓ یہاں ذکرِ محمدؐ کی طرح
بڑھتا جاتا ہے گزرتے ہوئے ادوار کے ساتھ
ایک اور جا انھوں نے کہا تھا: ’’یاد آتے گئے کربلا و نجف، کیفیت چھا گئی اک سرُور آ گیا‘‘۔ مناجات کی انتہا اور حاصل یہی ہے کہ ماہِ محرم کے ان لمحات میں، ہم پر بھی کیفیت چھا جائے اور سرُور آجائے۔ زندگی سے اگر کیفیت حذف کر دی جائے تو یہ اس سَرو کی مثل ہے جس کا پھل ہے نہ سایا، یکسر بے سود و بے ثمر ہے۔ خیال، تصور، گمان اور کیفیت کے سوا، یہ جسم چلتی پھرتی نعش ہے۔ اس صورت میں یہ مٹی کا تودا ایک فریب ہی تو ہے جو آلائشوں ، آزمائشوں اور دنیا کے جھمیلوں میں گھرا ہوتا ہے، جن کے باعث زندگی بے کیف ہو کر رہ جاتی ہے اور جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ گوناگوں آلام آ گھیرتے ہیں۔ اسی کے پیش نظر، جنابِ کرامت بخاری کی زبان سے ادا ہوئے یہ مصرعے، دعا کی صورت عرشِ بریں کا سفر کرتے ہیں:
؎ہر غم سے بچا لے مرے مالک مرے خالق
ہر غم سے بچا غمِ شبیرؓ عطا کر