عاشورا محرم کے فضائل

عاشورا، عشر سے بناہے جس کے معنی دس کے ہیں۔ یوم عاشورا کا لفظی معنی ‘دسویں کا دِن ہے۔ چونکہ یہ محرم الحرام کے مہینہ کا دِن ہے‘ اِس لئے اِس کو محرم الحرام کی دسویں کا دِن کہتے ہیں۔ ظہورِ اسلام سے پہلے بھی یوم عاشور قریش مکہ کے نزدیک بڑا دِن تھا۔ اِسی دِن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا اور قریش مکہ مکرمہ اِس دِن روزہ رکھتے۔ رسولِ کریمؐ کا دستورِ مبارک تھا کہ آپؐ مکہ والوں کے اُن کاموں سے اِتفاق فرماتے جو ملت ِابراہیمی کی نسبت سے اَچھے تھے۔ اِسی بناء پریوم عاشور کا روزہ رکھتے تھے۔ لیکن قبل از ہجرت اِس روزے کا کسی کو حکم نہ فرمایا۔ پھر آپؓ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو بقول عبداﷲ بن عباسؓ آپ ؐنے یہود کو یوم عاشورکا روزہ رکھتے پایا ـ: ’’تو اُن سے رسول اﷲؐ نے فرمایا اس روز تم روزہ کیوںرکھتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی او روز اﷲ نے حضرت موسیٰؑ اور اُن کی قوم کو نجات اور فرعون اور اُ س کے پیروکاروں کو غرق فرما یا تھا۔ حضرت موسیٰؑ روز شکرانے کا روزہ رکھتے اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسولِ کریم ؐنے اس پر اِرشاد فرمایا ہم حضرت)موسیٰؑ کے تم سے زیادہ حق دار ہیں۔ چنانچہ حضور نبی کریم ؐ نے یوم عاشورا کا روزہ، خود بھی رکھا اور اِس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا ‘‘۔ (بخاری ،مسلم مشکوٰۃ و دیگر) عبداﷲ بن عباس سے ہی روایت ہے‘ جب رسول اﷲ ؐ نے عاشورا کے دن کا روزہ رکھا اور اُس کے روزے کا حکم فرمایا تو صحابہ کرام نے عرض کیا‘ یا رسول اﷲؐ یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں تو سرکارِ کائناتؐ نے فرمایا: اگر ہم آئندہ سال اِس دُنیا میں رہے تو نویں محرم الحرم کا روزہ بھی رکھیں گے‘‘۔ (ابوداؤد ‘ مسند احمد،‘ المعجم الکبیر للطبرانی و دیگر) 
حضرت حکم بن الاعرج سے روایت ہے‘ میں حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کے پاس اُس وقت پہنچا جب وہ زمزم کے قریب بیٹھے تھے۔ میں نے کہا عاشورا کے روزہ کے بارے میں فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ جب تم محرم کی نویں تاریخ کا روزہ رکھو‘‘۔(مسلم اور ابو داؤد ترمذی ودیگر)
ایک اور روایت میں حضرت رزین نے حضرت عطا سے نقل کیا میں نے حضرت عبداﷲ بن عباس ؓسے سناکہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ (مسند احمد جلد ۵ ص ۳۶۸۔۲۲۹۔)
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ حفصہ روایت ہے‘ ’’چار اَعمال اَیسے ہیں جن کو رسول اکرمؐ نے کبھی نہیں چھوڑا۔ یوم عاشورا کا روزہ، عشرہ ذوالحجہ کے نو روزے اور ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے دو ر کعتیںیعنی سُنّتِ فجر‘‘۔(نسائی ،مسند احمد، السنن الکبریٰ و دیگر)
نبی کریمؐ کی ایک اور زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں: ’’رسول اﷲؐ ذی الحجہ کے نو روزے رکھتے تھے اور عاشورا کے روز دسویں محرم کاروزہ رکھتے تھے اور ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے ایک پیر کو اور دو ، دو جمعراتوں کو‘‘۔(نسائی ،مسند احمد‘ السنن الکبریٰ للبیہقی )
ایک روایت میں ہے: ’’رسولِ کریمؐ سے پوچھا گیا کہ کون سا روزہ ماہِ رمضان المبارک کے بعد افضل ہے؟ فرمایا: اﷲکے مہینے ماہِ محرم الحرم کے یوم عاشور کا روزہ‘‘۔ فقہاء فرماتے ہیں‘ اَب سُنّت یہی ہے کہ نویں اور دسویں کے روزے رکھیں کیونکہ حضور نبی کریم رؤکا نویں تاریخ کے روزے کا اِرادہ بھی تھا اور اِرشادِ مبارک بھی ہے۔بعض اَحادیثِ مبارکہ میں ہے کہ آپؐ نے اِس روزہ کا اَیسا تاکیدی حکم فرمایا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لئے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں : ’’رسولِ کریم ؐ یوم عاشورا کے روزہ کا حکم فرماتے تھے اور ہم کو اِس پر رغبت دیتے اور عاشورکے دِن ہماری تحقیقات فرماتے تھے پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو نہ ہمیں روزہ رکھنے کا حکم فرمایا اور نہ ہی منع فرمایا اور نہ تحقیقات فرمائیں‘‘۔ (مسند احمد، درمنثور، مشکوٰ، مسلم ، ابوداؤد۔)نفلی روزوں کے بارے میں ایک طویل حدیث شریف کے آخری حصّہ میں عاشورا کے روزہ کے بارے میں اِرشاد فرمایا کہ حضرت ابو قتادہ ؓسے روایت ہے‘ فرسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’عاشورا کے دن کا روزہ، مجھے اﷲ کے کرم پر اُمید ہے کہ پچھلے سال کا کفارہ بنا دے گا‘‘۔(بیہقی شعب الایمان ، مشکوٰۃ ، مسلم ، ترمذی ۔)حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے‘ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: 
’’رمضان المبارک کے بعد افضل روزے اﷲے مہینہ محرم الحرام کے ہیں۔ (مشکوٰۃ ترمذی،مسلم دیگر) حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت ہے‘ : ’’میں نے رسول اﷲؐ کو نہیں دیکھا کہ آپؐ کسی دِن کے روزہ کو دوسرے دِنوں پر بزرگی دے کر تلاش کرتے ہوں سوائے اِسی دن یعنی عاشورا کے دن اور اِسی مہینہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے‘‘۔ (مشکوٰۃ ص ۱۷۸۔)
امیر المؤمنین سیّدنا علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے‘ رسولِ کریم ؐنے اِرشادِ مبارک فرمایا کہ تم ماہِ رمضان المبارک کے بعد روزہ رکھنا چاہتے ہو تو محرم الحرام کے یوم عاشورا کا روزہ رکھو۔ حضور نبی کریم ؐنے لوگوں کو رغبت دلائی کہ عاشورا کے دن توبتہ النصوح کی تجدید کریں اور قبولِ توبہ کے خواستگار ہوں۔ حضرت اِمام ترمذی نے اِس کی تخریج کی ہے۔ (ترمذی جلد ۱ ص ۱۵۷۔)دسویں محرم الحرام یعنی یوم عاشورا کے بارے میں حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت ہے‘ رسولِ کریمؐنے فرمایا کہ جو دسویں محرم الحرام کو اپنے بچوں کے خرچ میں فراخی کرے گا، تو اﷲ تبارک وتعالیٰ اُس کو سارا سال فراخی دے گا۔ حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں‘ ہم نے اِس کا تجربہ کیا ہے اور درست پایا ہے۔ اِس حدیث شریف کو حضرت رزین نے روایت کیا ہے اور حضرت اِمام بیہقی نے شعب الایمان میں اِنہی حضرت عبداﷲ بن مسعود، ابو ہریرہ، ابو سعید اور جابر سے روایت کیا ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی۔)
یوم عاشورا شروع سے ہی بڑی اَہمیت کا حامل چلا آرہا ہے۔ ظہورِ اسلام سے پہلے ہی یہ عظیم دن تھا۔ حضرت سیّدناآدمؑ کی توبہ َربِّ ذوالجلال والاکرام نے یوم عاشورا کو قبول فرمائی۔ اِسی دِن حضرت نوحؑ اپنی کشتی سے جو دی پہاڑی پر اُترے اور روزہ رکھا اور ساتھیوں کو شکرِ الٰہی میں روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔شہدائے کربلا نے جو یزید پلید کی فوج سے ٹکرائے اور جام شہادت نوش فرمائے اور اِسلام کو اپنے خون سے تابندگی عطا فرمائی۔ اُنہوں نے یوم عاشورکی اَہمیت میں اِضافہ فرما دیا۔ 
حضرت شیخ شہاب الدین بن حجراپنی کتاب صواعق محرقہ میں تحریر فرماتے ہیںـ:’’خبردار! حضرت سیّدنا اِمام حسین پر یوم عاشورا کو جو مصائب درپیش آئے۔ درحقیقت یہ شہادت ہے جس سے علوِ مرتبت، رفعت ِمنزلت اﷲ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک بڑھتی ہے اور یہ کہ اہل بیت اَطہار ث کے درجوں کو بلند کرنا مقصود تھا۔ لہٰذا جو بھی اِس دِن کے مصائب و آلام کا تذکرہ کرے اُس کو مناسب ہے کہ حکم اِلٰہی کے لئے استرجاع یعنی اِنَّا الِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کے پڑھنے میں مشغول ہو تا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جو اُس پر ثواب مرتب فرمایا ہے اُس کا سزا وار بنے۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’یہی تو وہ حضرات ہیں جن پر اُن کے ربّ کریم کی جانب سے رحمت و کرم ہوتا ہے‘‘۔
اِس دِن کسی اور جانب اِلتفات نہ کرے سوائے اِس کے یا اِس کی مثل بڑی بڑی نیکیاں کرے جیسے روزہ۔ خبردار ، خبردار! بدعات میں مشغول نہ ہونا۔ کیونکہ مسلمانوں کے اَخلاق سے بہت بعید ہے‘ ورنہ اگر اَیسا ہوتا تو یقینا رسول اﷲ ﷺ کے وصال کا دِن اِس سے زیادہ غم کا سزا وار ہوتا ۔ (اَیسے ہی حضور نبی کریم رؤف ورحیم ﷺ کی چاروں صاحبزادیوں حضرت سیّدہ بی بی ز ینب، حضرت سیّدہ بی بی رقیہ ، حضرت سیّدہ بی بی اُم کلثوم اور حضرت سیّدہ بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اﷲ عنہن، امّہات المومنین، صحابہ کرام، خلفائے راشدین کے وصال و شہادتوں پر۔ اِسی طرح متعصب خوارج کی بدعات سے بچو جو اہل بیت کی قدح کرتے ہیں۔ اِسی طرح جاہلوں کی حرکات سے بچو جو فاسد کو فاسد سے، بدعت کو بدعت سے اور برائی کو برائی سے تقا بل سرور کا اِظہار کرتے ہیں۔ خوشیاں مناتے ہیں اور زیب و زینت کی نمائش کرتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن