انسانیت کے جان جہاں 

قارئین! تمام مسالک اور تعصبات سے بالاتر ہوکر اگر کوئی مسلم یا غیر مسلم ہم نام کے مسلمانوں سے یہ سوال کر بیٹھے کہ جنگ جمل اور واقعہ کرب و بلا بپا کرنے والے کیا مسلمان تھے؟
حضرت امیر معاویہ نے اپنی زندگی میں یزید کی جانشینی کیلئے لوگوں سے بیعت لے لی تھی۔ اس حوالے سے متعدد سوالات اور ابہام پیدا ہوتے ہیں  چونکہ اس کے جوابات سے باعث انتشار و فساد ہونے کا خدشہ ہے مگر شریعت اور اخلاق کی رو سے یہ مناسب نہیں تو راقم اپنا تمام تر زور یزید پر مرکوز کرتے۔ اس کے طریقہ حاکمیت پہ لگاتے ہوئے تمام تر حقائق اپنے قارئین کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اس میں سے نتیجہ خود اخذ کر لیں۔اس کے عہد حکومت کے پہلے سال میں ہی کرب و بلا کا افسوسناک‘ المناک واقعہ ہوا جسے مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں انتہائی غم‘ پچھتاوے‘ افسردہ و افسردگی‘ قلق‘ صدمے‘ تاسف‘ رنج اور دکھ درد کے ساتھ بتا رہا ہوں۔ بقول حضرت حفیظ تائب…؎
ہے لازوال کچھ ایسا حسینؓکا کردار
اُسے بہار بقائے دوام کہتا ہوں!!
یہ انتساب ہے سرمایہ ثبات میرا
کہ خود کو آل نبیؐ کا غلام کہتا ہوں
یہ حوصلہ بھی ہے‘ تائب‘ عنایات شبیر
جو حرف حق میں سیر بزم عام کہتا ہوں
ایک مسلمان کی حیثیت سے سبھی کو اپنے نبی رحمتؐ کی غلامی پر صد افتخار ہے اور یہی حال جناب مجیدنظامی کا تھا‘ کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ان کے نانا کی نسبت سے والہانہ پیار تھا جس کا اظہار وہ برملا بھی کر دیتے تھے۔ دوسرے سال اس کی فوجوں نے شہر رسولؐ جس سے آپؐ کو بے پناہ پیار تھا‘ حتیٰ کہ اسکے پہاڑ اُحد کو آپؐ سے اور آپ کواحد سے پیار تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ جنت کا پہاڑ ہے اور اسی طرح یہ جنت میں بھی جائے گا۔ دوسرے سال اس کی فوجوں نے بلد رسولؐ یعنی مدینہ منورہ پر چڑھائی کی اور حرا کے مقام پر یعنی میدان میں شہر کے ہزاروں باشندوں کا قتل عام کر دیا تھا اور سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور شہر مقدس میں داخل ہوکر لوگوں کو مار دیا گیا حالانکہ اسی شہر نے بوقت آزمائش و مصیبت اور آڑے اور مشکل وقت میں اپنے پیارے نبیؐ کو پناہ دی تھی اور وہ مقدس و پاکیزہ جگہ جہاں رسول پا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دس سال گزارے تھے اور جس پاک شہر کو نبی پاکؐ نے اپنی آخری آرام گاہ کیلئے پسند فرمایا تھا۔ تیسرے سال وہ مکہ مکرمہ پر چڑھ دوڑا اور اس کا محاصرہ کر لیا اور کعبے کی حرمت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہر پر سنگ باری کی۔ یعنی پتھر برسائے‘ جس سے بیت اللہ‘ خانہ کعبہ کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت اور قہر و جلال بیک وقت ظاہر ہوا اور ملعون یزید مر گیا اور پھر اس کے ساتھی مسلمانوں کو ہوش آیا اور محاصرہ اٹھا لیا گیا۔
دراصل یزید کے والد کے انتقال کے بعد حضرت امام حسینؓ بن علیؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ تشریف رکھتے تھے۔ یہ دونوں حضرات یزید نامراد کو خلافت اور حکمرانی کا اہل حاکم سمجھتے تھے۔ جب مدینے کے عالم نے جو یزید کا مقرر کردہ تھا‘ نے لوگوں سے یزید کی بیعت لینے کا کہا تو بیعت کی بجائے مدینے سے ہی نکل گئے۔ مختصر کرتے ہوئے قارئین کو میں وہ باتیں بتانا چاہتا ہوں جو عموماً لوگوں کو معلوم نہیں ہوتیں۔حضرت امام حسین  ؓ نے جب دیکھا کہ دشمن ان سے ظلم اور جبر کے زور پر بیعت لینا چاہتے ہیں تو آپؓ مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔مولا و امام حسین کے محض ستر بہتر کے مقابلے میں پانچ ہزار کے قریب گھڑ سواروں کا لشکر جرار تیار تھا۔تاہم حضرت حسینؓ کے جاں باز ساتھیوں نے‘ شجاعت و بہادری‘ ایثار و قربانی اور جذبہ جہاد کی ایسی نئی تاریخ رقم کی کہ جس کی مثال نہ تو کوئی دی جا سکتی ہے اور نہ ہی قیامت تک چلے گی۔ اللہ تعالیٰ کا پیارا فرمان کس قدر اوجِ کمال پر ہے کہ میں نے انسانوں کو صراط مستقیم بھی دکھا دیا ہے اور وسوسہ و حربہ ابلیس کا بھی بتا دیا ہے۔ اب اس پر منحصر ہے کہ وہ کس پر عمل پیرا ہوتا ہے؟جان جہان کے جان جہان‘ کنبے پہ آفت و افتاد نازل کرنے والے یزید کا نام و نشان باقی نہیں رہا۔ مگر آل حسینؓ‘ زندہ و پائندہ ہے اور آخر جہان تک ان شاء اللہ آباد رہے گی۔
اس کی نفرت بھی عمیق‘ اس کی محبت بھی عمیق
قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پر شفیق
اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم ہیں پیرانِ طریق

ای پیپر دی نیشن