نواسئہ رسولؐ ، جگر گوشہ بتولؓسیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اور کارناموں سے تاریخ اسلام کے صفحات روشن ہیں۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خاندانِ نبوت ، فاتح خیبر سیدنا حضرت علی المرتضیؓ کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپؓ کے نانا ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے کان میں بنفس نفیس اذان دی۔ اپنے پاکیزہ اور مبارک ہاتھوں سے شہد چٹایا۔ اپنا لعاب مبارک آپؓ کے منہ میں داخل فرمایا۔۔۔۔۔۔ دعائیں دیں اور حسین نام رکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی والدہ ماجدہ، اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی لخت جگر، خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو ’’عقیقہ‘‘ کرنے اورسر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کرنے کی تلقین فرمائی۔سیدنا حضرت حسینؓ نے اپنے نانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علی المرتضیؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔ جس کی وجہ سے آپؓ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت، رحمدلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؓ سے بہت زیادہ محبت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو گود میں اٹھاتے ، سینہ مبارک پر کھلاتے، کاندھے پر بٹھاتے اور کبھی ہونٹوں پر بوسہ دیتے اور رخسار چومتے۔
ایک موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا (ابن ماجہ) ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت حسینؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ان کا رونا مجھے غمگین کرتا ہے۔
ایک موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے اللہ تعالیٰ اس سے محبت کریں گے، حسین میری اولاد کی اولاد ہے۔ (ترمذی)
خلیفئہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اور خاندانِ نبوت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت اور اُلفت تھی۔سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب بچپن میں پہلی مرتبہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے بے اختیار عقیدت و محبت میں فرمایا کہ ’’بیٹا علیؓ کا ہے مشابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ کے ہے‘‘
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ’’حیرہ‘‘ علاقہ فتح ہوا تو مالِ غنیمت میں سے ایک نہایت ہی قیمتی چادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بطور ’’ہدیہ‘‘ بھیجی جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بخوشی قبول فرمائی۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ’’بدری صحابہ کرامؓ ‘‘کے وظائف سب سے زیادہ یعنی پانچ ہزار دہم سالانہ مقرر کیے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے وظائف بھی بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے برابر ہی مقرر فرمائے۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے حقیقی بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ محبت حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں یمن سے کچھ پوشاکیں آئیں۔۔۔۔۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے موافق اور شان کے مطابق کوئی پوشاک نہ ملی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خصوصی طور پر یمن کے علاقہ کے طرف آدمی بھیج کر مناسب لباس منگوایا جس کو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما نے زیبِ تن کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر فرمایا! اب میری طبیعت خوش ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اور خاندانِ نبوت سے عقیدت و محبت ، آپس میں رشتہ داری اور اُلفت و تعلق کے بہت زیادہ واقعات تاریخ کے روشن صفحات پر محفوظ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تو جنتی نوجوانوں کے سردار حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اپنے والد ماجد سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے حکم سے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے گھر کا پہرہ دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ذات مبارکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے لئے انتہائی عقیدت و احترام او رمحبت و تکریم کا مرکز تھی ۔۔۔۔۔۔
خاندانِ نبوت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اسلام کی دو روشن آنکھیں ہیں اور ان دونوں سے عقیدت و محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقدس شخصیات کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین