کربلا کے سانحہ میں شہادت حسینؓ اور خاندان پیغمبر اسلام کی شہادتیں تاریخ اسلامی کا اہم ترین واقعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر دین کی تکمیل کر دی اور سلسلہ نبوت اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔اسلام نے انسانیت کو ملوکیت کی بجائے خلافت کا بابرکت نظام عطا کیا۔خلفائے راشدین اور خلافت کے سلسلہ کے بعد خلافت موروثی بنیاد پر یزید کو منتقل کی گئی لیکن یزید کی خدمت عالم اسلام میں قبول نہ کی گئی۔ اہل کوفہ نے یزید کی حکمرانی سے تنگ آکر حضر ت امام حسینؓ کو خط لکھے اور وفود بھی ان کی خدمت میں بھیجے،ان لوگوں کے بے حد اصرار پر امام حسین ؓ نے عراق کی طرف رخت سفر باندھا۔اہل کوفہ کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور حضرت امام حسینؓ کے تایا زاد بھائی اور بہنوئی حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ کی پختہ رائے تھی کہ وہ قابل اعتماد اور اپنے موقف پر قائم رہنے والے لوگ نہیں ہیں۔نظام حکومت کے حالات،اسلامی،انسانی،سماجی قدریں اس قدرتلپٹ ہورہی تھیں کہ حق کے قیام کیلئے جدوجہد اور قیام کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔امام حسینؓ جب عراق کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں اس دور کا مشہور شاعر فرزدق ملا جو کوفہ سے آرہا تھا۔ وہ امام حسینؓ کا بڑا مداح تھا اس سے آپ نے کوفہ کے حالات دریافت کیے تو اس نے صاف الفاظ میں کہا کہ ’’ یعنی ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں مگر تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں ‘‘۔یہ ایسا مرحلہ تھا کہ امام حسینؓ کیلئے واپسی ممکن نہ تھی اور اللہ تعالیٰ کو ابھی اپنے دین کی حفاظت اور حق کی صاف شاہراہ کو قائم رکھنا مطلوب تھا اور یہ عظیم مشن رسول اللہ ﷺ کے براہ راست تربیت یافتہ نواسۂ رسول کے علاوہ کون انجام دے سکتا تھا۔
۱۰محرم الحرام، یوم عاشورہ تاریخ اسلام کا المناک دن ہے۔یزید نے اپنی ناجائز حکمرانی کی بقا کے لیے ظلم وجور،وحشت وبربریت کی انتہا کردی۔امام حسینؓ اپنے خاندان کے ساتھ حق کے تحفظ کیلئے شہادتوں کے بلند مقام پر فائز ہوئے اورقیامت تک کیلئے سربلند ہوگئے جبکہ ذلت و رسوائی یزید کیلئے دائمی مقد ر بن گئی۔ شہیدان کربلا اعلیٰ زندگی سے سرفراز ہوگئے اور حیات جاوداں پاگئے۔پوری امت اس غم اورصدمہ کو اپنا غم اور صدمہ قرار دیتی ہے۔شہادت حسین ؓکے عظیم فلسفہ اور پیغام کو جاننے کی بہت کم کوشش کی جاتی ہے۔خراج تحسین،عزاداری،غم واندوہ کا اظہار بھی فطری ہے لیکن اپنوں اوراغیار کی کوششوں کی وجہ سے امت میں اس عظیم سانحہ کو متنازعہ بنانے کی سازشیں جاری رہتی ہیں۔ یزید تو عبرت بن گیا لیکن یزیدیت کے پیروکار فرقہ پرستی اور فساد کو پھیلانے کا شیطانی کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ ماہ محرم میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ غم صرف اہلِ تشیع کا ہے جبکہ اکابرین اہل سنت ،مفکرین، مفسرین کی آراء اور موقف کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزادنے امام حسینؓ کے حوالے سے اپنی کتاب شہید اعظم میں تحریر کیا ہے کہ
بغیر کسی مبالغہ کے کہاجاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسل انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہونگے جس قدر اس حادثہ پر بہہ چکے ہیں۔ تیرہ سو برس کے اندر تیرہ سو محرم گزر چکے اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا ہے۔ امام حسینؓ کے خونچکاں حادثہ سے کربلا میں جس قدر خون بہا تھا اسکے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزادنے حُرکے لشکر کے سامنے امام حسینؓ کا ایک خطبہ انکی لفظوں میں تحریر کیا ہے۔’’اے لوگو اگر تم تقویٰ پر ہو اور حق دار کا حق پہچانو تو یہ خداکی خوشنودی کا باعث ہوگا۔ہم اہل بیعت ان مدعیوں سے زیادہ حکومت کے حق دار ہیں۔ان لوگوں کاکوئی حق نہیں، یہ تم پر ظلم وجور سے حکومت کرتے ہیں لیکن اگر تم ہمیں ناپسند کرو،ہمار ا حق نہ پہچانو اور اب تمہاری رائے اسکے خلاف ہوگئی ہو جو تم نے مجھے اپنے خطوط میں لکھی اور قاصدوں کی زبانی پہنچائی تھی تو میں واپس چلے جانے کو بخوشی تیار ہوں۔‘‘لیکن عہد الٰہی کو شکستہ کرنیوالے ،اللہ کے بندوں پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرنیوالے شیطان کے پیروکار بن گئے۔ بدعہدی کرنیوالے ہر حدسے گزر جانے کیلئے تیار تھے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کے متنوع موضوعات پر نقطہ نظر کے اظہار کا حق ادا کیا ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی معاشرے میں امام حسینؓ کا جو مقام تھا اس کے مقابلے میں یزید کی کسی پر نگاہ نہیں پڑسکتی تھی اور یزید مسلمانوں میں بالکل بے حیثیت تھا،اگر مسلمانوں پر بظاہر مسلمان حکمران ہوں لیکن اس کے طور طریقے اسلامی تعلیمات سے انحراف کے ہوں، تو اس کے خلاف اقدام کیلئے ہمارے پاس واحد نمونہ امام حسینؓ کی ذات ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جارہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھنیں پیش آتی ہیں۔قو م مسلمان ہے،حکومت مسلمان کے ہاتھ میں ہے لیکن چلائی غیر اسلامی طریقے پر جارہی ہو تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے ، اگر حضرت امام حسینؓ نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت رہنمائی کی نہ ہوتی۔سید مودودیؒ نے یہ بھی رہنمائی دی اور تحریر کیا ہے کہ مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ امام حسینؓ کے سوا ہمارے پاس کوئی نمونہ نہیں۔ ’’یہ حضرت حسین ؓ کا نمونہ ہی تو ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت کے بگاڑ کے وقت رہنمائی کرتا ہے اگر اس نمونہ کو بھی بگاڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا۔ معاملہ صرف یہ نہیں کہ جگر گوشہ رسول ﷺ کو قتل کردیا گیا اورہم نوحہ خوانی کے لیے بیٹھے ہیں بلکہ نمونہ حاصل کرنے کا ہے‘‘
حضرت علیؓ اور حضرت امام حسینؓ کواپنی زندگی میں مختلف حالات کا سامنا رہا۔صرف ان ہستیوں کی یاد منانا کافی نہیں بلکہ اپنے اپنے معاشروں میں اس پیغام کو جاننا چاہیے کہ حضر ت علیؓ کا نمونہ کن حالات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اورحضرت حسینؓ کا نمونہ کن حالات میں ہمارے کام آتا ہے۔ انہی نمونوں کو سامنے رکھ کر امت کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہے گا۔حضرت علی ؓ کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہو تو کیا کرنا چاہیے اور حضرت امام حسینؓ کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حالت بگڑ رہی ہو تو مسلمانوں کا کام تماشبین بن کر بیٹھنا نہیں بلکہ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اصلاح کیلئے کھڑا ہوجائے خواہ وہ اکیلا ہی ہو اورخواہ نتیجہ کچھ بھی نکلے۔
مولانا سید مودودی ؒ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ امام حسین ؓ کی عظیم قربانی کا پیغام جانیں اور سبق حاصل کریں ۔فقط رنج وغم کا اظہار نہیں بلکہ امامؓ اور ان کے خاندان کی عظیم قربانی کے مقصد شہادت کو ہمیشہ سامنے رکھا جائے۔