لکھنے میں من کی موج ہوتی ہے ۔ لیکن رائٹر سے زیادہ ریڈر ہوں ۔ پھر قاری بھی ایک خاص انداز اور مزاج کا ہوں۔ بہت سی چیزیں صرف ایک مرتبہ پڑھنے کی ہوتی ہیں۔ ایسی کتابوں کو جمع کرنا اچھا نہیں لگتا ۔ انہیں بیچنا بھی اچھا نہیں لگتا۔ پہلے دوست ملاقاتیوں کو گفٹ کیا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ سیشن کورٹ گوجرانوالہ مرتضیٰ کمال میموریل لائبریری میں بھجواتا رہا ہوں۔ پچھلے دنوں ایک انبار چوہدری محمد انور کمبوہ ایڈووکیٹ لے گئے ۔ یہ گوجرانوالہ میں ادب کی شمع جلائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ضلع کچہری میں ایک لائبریری بنائی ہوئی ہے ۔وہاں یہ باقاعدگی سے ہفتہ وار ادبی محفلیں منعقد کرواتے رہتے ہیں۔
زندگی کے ابتدا ئی برسوں سے پڑھتا چلا آرہا ہوں۔ ہمارے بچپن میں بچوں کے کئی رسالے ہوا کرتے تھے ۔ ان دنوں ان کی اشاعت بھی بہت تھی ۔ میرا بچپن ہدایت ، بچوں کی دنیااور تعلیم و تربیت میں گزرا۔ گھر میں اخبارات کا اک پلندہ آتا۔وہ بھی نظروں سے گزرتا۔’’ نقوش‘‘ کا غزلیات نمبر ‘ اسکول کے زمانہ میں دیکھا۔ اس میں سے بہت سے اشعار اب بھی حافظے پر ثبت ہیں۔ ایک عرصہ تک یہ شمارہ میرے پاس محفوظ رہا۔ چند برسوں سے تلاش پربھی نہیں ملا۔ تھک ہار کر رہ گیاہوں۔ کوئی مانگ کر یا اٹھا کر لے گیا ہوگا؟
؎روشنی کی جستجو کیسی کہاں کی روشنی
جل بجھے آخر میں دونوں شمع کیا پروانہ کیا
اب زندگی کے 74ویں برس سوچتاہوں اور کتنا جی لیں گے ؟
؎نہیں بیگانگی اچھی رفیق رہ منزل میں
ٹھہر جااے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں رہنا چاہئے ۔ لیکن اب کتابیں ہماری زندگی سے نکل چکی ہیں۔ گلزار نے کتابوں کا نوحہ لکھاکہ یہ ہماری عدم توجہ کا شکار ہیں۔ الماریوں سے ہمیں اپنی طرف بلاتی رہتی ہیں۔لیکن کون سنتا ہے ان کی فغاں۔ ہمارے بچپن کا زمانہ شعرو شاعری اور مشاعروں کا زمانہ تھا۔ اب مشاعروں میں حاضرین ایک مسئلہ ہیں۔ صرف شاعر ہی حاضرین ہوتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں مشاعروں میں ٹکٹ پر داخلہ تھا۔ عدمؔ اس زمانہ میں بہت پسندیدہ تھے ۔ وہ جھومتے ہوئے اسٹیج پر آتے ۔
؎گُر سکھا دیں گے بادشاہی کے
ہم فقیروں سے دوستی کر لو
؎ میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا
؎ قیامت کی گرمی میں کوثر کے چھینٹے
جوانی کے رخ پر حیاکا پسینہ
منیر نیازی اور انور مسعود بہت بعد کے شاعر ہیں۔ اب ادب بہت کم لوگوں کا مسئلہ رہ گیا ہے ۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں معنوں میں ہماری زندگی سے خارج ہو چکا ہے ۔ اب نہ ہی لوگوں میں شعری ذوق رہا ہے اور نہ ہی لوگ شائستہ رہے ہیں۔
سابق صدر پاکستان رفیق تارڑ نے بتایا کہ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت کہا کرتے تھے۔ وہ لوگ زندگی کی کتنی بڑی لذت سے محروم اور کتنے بدقسمت ہیں جنہیں شعری ذوق نہیں۔ لیکن اب اور زمانہ آگیا ہے ۔ چند روز پہلے ایک محفل میں ایک صاحب نے اپنی سیر حاصل گفتگو کا اختتام ایک شعر سناتے ہوئے کیا۔ دوسرے صاحب جنہیں انکے نظریات سے ہی اختلاف تھا بڑی بدتمیزی سے کہنے لگے ۔ آج اگر کوئی شعر سنائے تو یا وہ شاعر لگتا ہے یا پھر گویّا ۔ گویا وہ ان دونوں کو شریف اور معزز آدمی کسی صورت ماننے کوتیار نہیں تھا۔گوجرانوالہ میں اک بہت بڑا علمی کام ہوا ہے ۔ یہ دیوان غالب کا منظوم پنجابی ترجمہ ہے ۔ پروفیسر اسیر عابد نے اس ترجمے میں کمال کر دیا ہے ۔ بقول احمد ندیم قاسمی کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے غالب نے اسیر عابد کے شعر کا ترجمہ کیا ہو۔ قبولیت اور شہرت سبھی کو نصیب نہیں۔ پروفیسر اسیر عابد کاتذکرہ بہت کم سننے میں آتا ہے ۔ مختار مسعود شہرت کے باب میں بڑے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔ ان کی کتابوں آواز دوست، لوح ایام اور سفر نصیب کے بار بارایڈیشن شائع ہوتے رہے ۔ ان کی موت کے بعد انکی چوتھی کتاب بھی شائع ہوئی ہے ۔ لیکن یہ معیار میں پہلی کتابوں سے کمتر ہے ۔ آغا بابر کی کتاب خدو خال خاصے کی چیز ہے۔ اسے کئی بار پڑھنے پر بھی سیری نہیں ہوتی ۔ ساقی فاروقی نے اپنی آٹو بائیو گرافی پاپ بیتی کے نام سے لکھی ۔ پہلے ان کا ایک شعر سن لیں۔
؎ہم وہ عاجز ہیں کہ ہر روز دعا مانگتے ہیں
اور اک تم کہ خدائی نہیں دیتے ہم کو
شاعروں کو بہت کچھ معاف ہے ورنہ نثر میں ایسے خیالات قابل دست اندازی پولیس ہیں۔ ان کی کتاب ہدایت نامہ شاعربھی بار بار پڑھنے کی چیز ہے ۔تذکرہ غوثیہ تصوف کی کتاب ہے۔ غوث علی شاہ پانی پتی کی یہ کتاب کچھ لوگ فکشن کے طور پر بھی پڑھتے ہیںاور حظ اٹھاتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ کتاب من گھڑت ہے اوراسماعیل میرٹھی نے لکھی ہے۔ دروغ بر گردن ریسرچر ۔ قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ‘‘ کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی ۔ قدرت اللہ شہاب گورنر جنرل غلام محمد ، صدر سکندر مرزا اور ایوب خاں کے سیکرٹری رہے ۔ ان تینوں سربراہوں نے ایک دوسرے کو فارغ کیا لیکن کمال یہ ہے کہ شہاب کو تینوں نے برقرار رکھا۔ اردو کے عظیم مزاح نگار مشتاق یوسفی کے بارے ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے لکھا۔’’ ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘‘۔ بیس برس پہلے روزنامہ ’’دن ‘‘ سے کالم لکھنے کا آغاز کیاتھا۔ جناب مجیب الرحمان شامی کے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ سے ہوتے ہوئے پندرہ برس سے ’’نظامی یاد گار‘‘روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں لکھ رہا ہوں۔ اب دیکھئے عمر کب تک وفا کرتی ہے ۔