سیلاب! آنگن میں رقصاں موت

قدرتی آفات کا انسان سے واسطہ اس کی تخلیق کے وقت سے چلا آرہا ہے قدرتی آفات سے مقابلہ انسان کے بس کی بات نہیں تاہم بہتر منصوبہ بندی اور اور جدید ٹیکنالوجی مثلاً الارم سسٹم ، موسمی اور ارضیاتی (geological) پیشگوئیوں، فوری ردعمل (quick response) اور جدید مشینری کی مدد سے ان آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے، اس سال ہونے والی شدید اور معمول سے کئی گنا زیادہ ہونے والی بارشوں کی وجہ سے وطن عزیز کے تقریباً ایک تہائی کے قریب علاقے کو سیلاب کی ہولناک تباہ کاریوں کا سامنا ہے،سینکڑوں دیہات کے سیلاب میں بہہ جانے کی اطلاعات منظر عام پر آ رہی ہیں، صرف تونسہ شریف میں دریائے سندھ اور معاون دریا کے پھپھرنے سے بیس سے زائد گاو¿ں کے صفحہ ہستی سے مٹنے کا خدشہ ظاہر کیا چکا ہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ایک ہزار سے زاید ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں لیکن خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، این ڈی ایم اے کے جاری کردہ دیگر اعداد و شمار کے مطابق سات لاکھ کے قریب مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں جبکہ ساڑھے نو لاکھ سے زائد مکانات و عمارات تباہ ہو گئے پیں براہ راست یا بلواسطہ تین کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہونے کا خدشہ ہے،ریلیف کیمپوں میں پانچ لاکھ کے قریب افراد موجود ہیں جبکہ لاپتہ افراد کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ پورے ملک میں انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 149 پل جبکہ 3451 کلومیٹر سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں یہ اعداد و شمار اس سیلاب کی ہولناک تباہی کے شاہد ہیں جبکہ ان اعدادوشمار میں اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ مون سون کا سیزن غیر معمولی طور پر طویل ہوتا جا رہا ہے۔ معصوم بچوں، بے بس ماو¿ں اور اولاد کی خاطر پہاڑوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھنے والے باپوں کی پانی میں بہتی میتیں انسان کی بے بسی اور لاچاری کی تصویر کشی کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ دیہات جو کچھ ہفتے تک زندگی کی بھر پور رونقوں اور رعنائیوں سے مزین تھے رات و رات اجڑ گئے برباد ہو کر
 تباہی و ویرانی کا منظر پیش کرنے لگے۔ لوگ کناروں پہ کھڑے بے بسی سے اپنے مال مویشی قیمتی اشیاءو دیگر متاع حیات کو اپنی آنکھوں کے سامنے پانی میں بہتا دیکھتے رہ گئے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 1961ئ کے بعد یہ شدید ترین بارشیں تھیں یعنی بارشوں کا ساٹھ سال سے زاید عرصے کا ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق سندھ معمول سے 522فیصد زائد، بلوچستان میں469 فیصد، پنجاب میں معمول سے 116فیصد، گلگت بلتستان میں 32 فیصد پختونخوا میں 30 فیصد زائد بارشیں ہوئی ہیں۔ یہ جیسا پہلے عرض کیا کہ قدرتی آفات سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن بہتر منصوبہ بندی سے نقصانات کو کم تو کیا جا سکتا ہے محکمہ موسمیات نے جون کے وسط میں ہی معمول سے زیادہ بارشوں کی پیشگوئی کر دی تھی گو کہ جتنی تباہ کن بارشیں ہوئی ہیں اتنی پیشگوئی نہیں کی گئی تھی بہرحال یہ بتا دیا گیا تھا کہ شدید اور طوفانی بارشوں کا امکان ہے جس کے نتیجے میں شہری و دیہی علاقوں میں سیلاب کا خدشہ ہے۔ بدقسمتی سے صوبائی و مرکزی حکومتوں نے دستیاب معلومات کی بنیاد پہ بروقت حفاظتی اقدامات نہیں کیے نہ ہی آپس میں کوئی ربط رکھا جس کے نتائج انتہائی تباہ کن ثابت ہوئے اور مصائب و الم کی اس گھڑی میں عوام بیچارے تنہا ہی بے سرو سامانی کے عالم میں اس مشکل سے لڑتے نظر آئے کیونکہ حکومت مکمل طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں ناکام رہی۔ سندھ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں لوگ اگست کی جھلسا دینے والی دھوپ میں کھلے آسمان تلے رہنے پہ مجبور ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے دیے گئے خیمے مطلوبہ ضروریات سے بہت کم ہیں جبکہ انھیں لگانا اور سنبھالنا الگ سے مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ گیلی زمین میں ان خیموں کو کھڑا رکھنا آسان نہیں۔ ہوا کے ہلکے سے جھونکے سے گر جاتے ہیں اس کے علاو¿ہ اشیائے خوردونوش کی شدید قلت ہے سینکڑوں پلوں اور رابطہ سڑکوں کے بہہ جانے سے امدادی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں ترسیل کی رفتار بہت سست ہے امدادی سامان بروقت پہنچانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے ادھر امدادی سامان کی ترسیل، فراہمی کی بابت کوئی ایسا مرکزی و مربوط نظام موجود نہیں جو مخیر حضرات اور امدادی اداروں کے کارکنان کی راہنمائی کر سکے کہ کس علاقے میں کتنی امداد دی جا چکی ہے اور کونسے علاقے ابھی تک محروم ہیں۔ لاکھوں ایکڑ رقبے پہ کھڑی فصلوں کی تباہی کے باعث پہلے سے ہی مہنگائی اور قدرتی آفات کے گرداب میں پھنسے عوام کو اشیاء خوردونوش کی عدم دستیابی اور گرانی کا سامنا ہے۔ اتنے وسیع پیمانے پر فصلوں کی تباہی کے اثرات شدید مہنگائی کی صورت میں نظر آنے شروع ہو گئے ہیں گندم، دالوں اور دیگر اجناس کے گودام بھی اس آفت کی زد میں آئے ہیں جس کے باعث طلب و رسد میں تفاوت کا خدشہ موجود ہے، طلب اور رسد سے منسلک تجارت کے اصول کے مطابق جوں ہی طلب میں اضافہ یا رسد میں کمی ہوگی تو لامحالہ قیمتیں بڑھیں گیں اس خطرناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کو فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب مرکزی و صوبائی حکومتی اداروں کے آپس میں مسلسل رابطے اور معلومات کے تبادلے کا مربوط نظام ہو۔ ہمارے انتظامی اداروں کا یہ عمومی رویہ رہا ہے کہ وہ کسی آفت یا مصیبت سے نمٹنے کی پیشگی منصوبہ بندی پہ یقین نہیں رکھتے بلکہ اس کے آنے کا انتظار کرتے ہیں پھر جب آفت سر پر پہنچ جاتی ہے تو ہاتھ پاو¿ں پھول جاتے ہیں اور انھیں کچھ سجائی نہیں دیتا اس وقت اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ حکومت ریلیف اور بحالی آپریشن کی تمام تر ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے فلاحی تنظیموں اور امدادی کارکنان کو اپنی نگرانی و سرپرستی میں اپنے ساتھ ملا کر انتہائی منظم انداز میں ریلیف آپریشن جاری رکھے یقینی طور مرکزیت و نظم سے سر انجام دی گئی امدادی کارروائیاں انفرادی اور غیر مربوط کاروائیوں کی نسبت زیادہ ثمر آور ہوں گی۔ یہاں الخدمت فاو¿نڈیشن کی مثال کی جاسکتی ہے جو سردست غیر سرکاری تنظیموں میں امدادی کارروائیوں کے اعتبار سے سب سے آگے ہے اس کی برتری کی اہم ترین وجہ پورے ملک میں موجود ان کا مربوط ڈھانچہ ہے جس میں عطیات کی وصولی سے ترسیل کا تیز ترین نیٹ ورک موجود ہے جس نے آفت زدہ علاقوں میں اس ادارے کی فعال و جاندار موجودگی کو ممکن بنایا۔ اگر حکومت اور ذیلی اداروں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو یقین کریں مورخ لکھے گا کہ جب آفت کی صورت میں بدشکل ڈائن بستیوں کو چٹ کر رہی تھی اور ہر آنگن میں موت رقصاں تھی تو عاقبت نااندیش سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی چالوں میں مگن تھے۔

ای پیپر دی نیشن