57 سال پہلے پانچ اور چھ ستمبر 1965کی درمیانی شب تھی جب بھارتی فوج خاموشی سے بین الاقوامی سرحد عبور کرکے واہگہ کے راستے پاک سرزمین پرحملہ آور ہوگئی ، رات کے سکوت کو اچانک توپوں کے گولوں کے پھٹنے اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے توڑ ڈالا تھا۔ جیسے جیسے صبح کی سپیدی نمودار ہونے لگی، پا ک فوج کے جوانوں نے بھارتی ٹڈی دلوں کے لشکر کی نہ صرف پیش قدمی کو آگے بڑھ کر روک دیا تھا، بلکہ جوانوں نے اپنے لہو کا نذرانہ دے کر بہادری و جرات کی وہ روشن مثالیں قائم کیں جو آج بھی ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔
اس وقت کے بھارتی فوج کے سربراہ دوپہر کا کھانا لاہور کے جم خانہ میں تناول کرنے کا خواب ہی دیکھتے رہ گئے۔ آکاش وانی نے لاہور پر قبضہ کی خبر نشر کر دی کہ ان کے خیال میں بھارتی فوج کو اپنی فتح کا یقین تھا، مگر ان کو معلوم نہ تھا کہ پاکستانی قوم جس نے بابائے قوم قائداعظم کی قیادت میں اپنی جان و مال کی قربانیاں دے کر یہ پاک سرزمین حاصل کی ہے اس کی حفاظت کرنا بھی جانتی ہے ۔بھارت کے بزدلانہ اقدام کے خلاف جہاں پاک فوج دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی تھی وہاں پاکستانی قوم بھی جوش و خروش سے وطن عزیز کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق ہرکوئی ملک کی خدمت میں پیش پیش دکھائی دے رہا تھا۔
سبھی جانتے ہیں کہ 57 برس قبل بھارت نے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو پامال کرنے کی سعی کی تھی جس کے جواب میں افواجِ پاکستان اور عوام نے قربانیوں کی ایسی لازوال داستان رقم کی جو تاریخ کا سنہری باب ہے ۔اسی حوالے سے پوری قوم 6 ستمبر کو یومِ دفاعِ پاکستان مناتی ہے اور ان شہیدوں اور غازیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جنہوں نے قومی سلامتی اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنا حال قربان کر دیا تھا ۔اس کے علاوہ بھی جب وطنِ عزیز کو کسی اندرونی ،بیرونی یا قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو افواجِ
پاکستان ہراول دستے کے طور پر اپنا روشن کردار ادا کرتی ہے۔بھلے ہی وہ 2005 کا قیامت خیز زلزلہ ہو،آپریشن ضرب عضب ہو،آپریشن ردالفسادہو، تھر کی قحط سالی یا پھررواں سیلاب کی تباہکاریاں۔ہر مشکل کی گھڑی میں قوم اپنے ان فرزندوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتی ہیں اور انھیں نے بھی قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا۔
سترہ روزہ جنگ میں پاکستانی قوم نے جس جذبہ اور ایثار کا مظاہرہ کیااس کی مثال ملنی مشکل ہے۔پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج نے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا تھا۔ فضا پر ایم ایم عالم جیسے شاہینوں اور زمین پر میجر عزیز بھٹی جیسے شیروں نے بزدل دشمن کی وہ حالت بنائی کہ وہ دہائیوں تک اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہو گیا۔ میجر عزیز بھٹی نے جام شہادت نوش کرکے ثابت کر دیا کہ پاکستانی وطن کی حفاظت میں اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ سات ستمبر کو دشمن نے پاک فضائیہ کے اڈے سرگودھا کی طرف بھرپور توجہ دی اور بمباری کے لئے اپنے طیاروں کو غول در غول بھیجا۔ ان میں سے چار مسٹر زمینی توپچیوں نے اڑا ڈالے۔ ایک F104 سے گرایا گیا اور پانچ سکوارڈن لیڈر ”محمد محمود عالم“ نے صرف 30 سیکنڈ کے عرصے میں گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس روز کے بعد انڈین ایئر فورس نے دن کے وقت سرگودھا پر حملہ کرنے کی کبھی جرات نہ کی۔
اس کے علاوہ عالمی امن کو یقینی بنانے کی خاطر بھی پاک آرمی نے اقوامِ متحدہ کی امن فوج کا حصہ بن کر دنیا کے مختلف خطوں میں جو مثبت کردار ادا کیا ہے اس کا معترف ایک زمانہ ہے۔ماضی قریب میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے دورہ پاکستان کے دوران اس حوالے سے افواجِ پاکستان اور یہاں کے عوام کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی میڈیا کا ایک بڑا حلقہ وقتاً فوقتاً پاک آرمی اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس ضمن میں خود پاکستانی ذرائع ابلاغ اور اربابِ اقتدار میںسے کچھ عناصر شعوری یا نا دانستہ طور پہ حقائق کو اکثر اوقات توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں ، مثال کے طور پہ حالیہ دنوں میں ملک میں جاری سیاسی انتشار کے حوالے سے وطنِ عزیز کے میڈیا کا ایک حلقہ پاک فوج کے کردار کے ضمن میں عجیب و غریب افسانے گھڑ رہا ہے اورافواجِ پاکستان اور ISIکے انتہائی مثبت کردار کو منفی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے یوں بالواسطہ اور براہ راست دونوں طرح سے مٹھی بھر پاک دشمن عناصر کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے ۔اس ضمن میںبعض اخبارات نے تواپنے ادارتی صفحات گویا اسی مقصد کے لئے مخصوص کر رکھے ہیں یوں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے ڈس انفارمیشن کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہے ۔خاص طور پر بعض ٹی وی چینل جعلی ریٹنگ کے ذریعے حقائق کو بری طرح مسخ کر رہے ہیں۔اس تمام منظر نامے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح اگرچہ وطنِ عزیز میں بھی سبھی حکومتی اور سیاسی معاملات مثالی حد تک صحیح نہیں ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش بہر طور موجود ہے مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے والے یہ عناصر غالباً کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ گذشتہ کافی عرصے سے نظریہ پاکستان ،ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کہ ہدفِ تنقید بنانا دانشوری ،ترقی پسندی اور انسان دوستی کی واحد علامت بن گیا ہے اور یہ طرزِ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اختیار کرتا جا رہا ہے حالانکہ مناسب اور تعمیری سوچ غالباً یہ ہونی چاہیے کہ خود احتسابی اور خود مذمتی کے مابین حدِ فاصل کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور صحافتی،سماجی اور سیاسی اکابرین اپنا سارا زورِ خطابت نظریہ پاکستان اور اس کے محافظ اداروں کو مطعون کرنے کی بجائے (پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ) کی سوچ کے تحت اپنی توانائیاں تعمیری ڈھنگ سے صرف کریں۔ کیوں کہ حکایت ہے کہ کسی گاﺅں میں کافی عرصے سے بارش نہیں ہوئی تو لوگوں نے فیصلہ کیا کہ باہر کھلے میدان میں جا کر دعا کی جائے،سب گئے مگر ایک بچہ چھتری ساتھ لے کر گیا،یہ ہوتا ہے عقیدہ۔غالباً اس حکایت میں ہمارے قومی منظر نامے اور ڈس انفارمیشن کے حوالے سے کئی سبق پنہاں ہیں۔