پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی بہت عجیب و غریب ہے حکمران طبقہ سیاسی مخالفین کو کچلنے اور انہیں عوام میں بدنام کرنے کے ہر دور میں مختلف حربے آزماتا رہا ، فیلڈمارشل لاء ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف پروپگینڈہ کر کے” حشر نشر “کر دیا پھر زوالفقار علی بھٹو نے مولانا مودودی اور مفتی محمود کے خلاف اقدامات اٹھا کر اسی کلچر کو ہوا دی ۔مولانا مودودی کو تو عدالتوںسے سزائے موت کا حکم دلوایا گیا۔مفتی محمودکو اسمبلی سے اٹھاکر باہر پھینک دیا۔بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف بھی اسی ڈگر پر چلتے رہے، بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور میاں نواز شریف وزیر اعلی پنجاب دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری اور منتقی پروپیگینڈہ پر عمل پیرا تھے ۔بینظیر بھٹو کے کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے ارکان اسمبلی کو چھانگا مانگا لا کر تر غیبات کی آفر دی گئیں ۔بے نظیر بھٹو نے دوسرے دور اقتدار میں پنجاب میں اپنا راج قائم کرنے کے لئے چھانگا مانگا کلچر اپنایا ۔مخالفت برائے مخالفت میں اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت اور بے بنیاد پروپگینڈہ 2000 میں دم توڑ گیا ۔فیس بک ،واٹس ایپ،اور ٹویٹر کے بے لگام ہتھیار آنے سے سارا کلچر یکسر تبدیل ہو گیا اب بیٹھے بٹھائے مخالفیں کی کردار کشی اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی روش ایسی چلی کے وضاحت بے معنی ہو کر رہ گئی ۔ان ہتھیاروں کا موثر استعمال میا ں نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے کے لئے ہوا پانامہ لیکس کے مقدمہ کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا نے بھر پور کردار ادا کیا۔عمران خان سترہ برس سے سیاست میں زور آزمائش کررہے تھے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی تھی ۔پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں جب پی ٹی آئی کی کلوننگ کر کے اس کی آبیاری کرنے کی ٹھانی گئی تو سوشل میڈیا کو خوب استعما ل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کی کمزوریوں کو بڑی خوبصورتی سے عوام تک پہنچایا اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ اپنے حصے کا کام کریں ۔اب تو یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کے پی ٹی آئی نے ہزاروں نوجوان سوشل میڈیا پر لگا کر بھاری معاوضے بھی دئیے اور آجکل سوشل میڈیا کے ماہر کو پنجاب حکومت میں اہم زمہ داریاں دی گئیں ۔پی ٹی آئی کے ناقدیں کا یہ سوال ہے کہ نوجوان نسل کو پروپیگینڈہ کے زریعے چھوٹے بڑے کا احترام نہ کرنے پر لگا کر اخلاقیات کا جنازہ نکا ل دیا ۔کیا اب یہ نوجوان ملک کی تعمیروترقی میں کوئی موثر کردار ادا کرنا چاہ رہے ہیں؟کیونکہ جب نوجوان کو ہر کا م میں کیڑے نکالنے اور ہر ایک کو چور اور ڈاکو بنانے کی تربیت دی گئی وہ کیسے تعمیری سرگرمیوں کے لیے تیار ہو سکتا ہے ؟یوٹرن خان نے خود سے بھی یہی کلچر اپنایا اور ہر ایک کیخلاف بیان بازی کو منشور بنایا ہوا ہے نتیجہ میں وہ پورے چار سال وزیراعظم رہنے کے باوجود کچھ نہیں کر سکے ۔اور اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ رلیشن شپ قائم نہ کر سکے جب اوقتدار سے محروم ہوئے تو بانی عناصر کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف گولہ باری شروع کر دی ۔پھر وہی لونگ مارچ گالی گلوچ کی سیاست اور نوجوانوں کوتہذیب اور اخلاق سے دور کرنے کے پروگرام کو آگے بڑھانے لگے ۔وزیراعظم شہباز شریف نے کئی بار یوٹرن خان کو بات چیت کرنے کی دعوت دی مگر وہ چوک اور چوراہوں کی سیاست پر گامزن ہیں ۔نیوٹرلز کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے حتی کہ لسبیلہ کے شہداءکی قربانی کو متنازہ بناتے رہے تحقیقاتی اداروں نے اس کے تناظر میں تحقیقات کی تو پتا چلا کہ بھارت نے پروپیگینڈا کے لئے پی ٹی آئی کی مالی معاونت کی ہے عدلیہ کی مدد سے جب سے یو ٹرن خان نے پنجاب میں حکومت قائم کی ہے مسلم لیگ ن کے وزرا اور ارکان ا سمبلی کے پنجاب میں داخلے پر گرفتاریوں اور بے بنیاد مقامات بنانے کی ہدایت کر رکھی ہے اب وفاقی وزرا ءضمانت قبل از وقت گرفتاری کر کے اپنے حلقوں کو جاتے ہیں بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوئی ۔خیبرپختوخواہ حکومت کو ہدایت کرتے ہیں کہ نوازشریف آصف زرداری مولانا فضل الرحمن کیخلاف غداری کے مقدمات قائم کیے جائیں ۔غداری کے سرٹیفکیٹ دینے کے کلچر کا بانی یوٹرن خان ہے جسے نامعلوم لوگ جو کہتے ہیں وہ کرتا جا رہا ہے ۔ تین صوبوں میں نفرت مخالف اور جھوٹ کو جس طرح مخالفیں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ایسے میں یہ اندیشہ ہوا ہے کہ ملک کی بییادوں کو کھوکھلا کرنے والا یہ شخص کس سے رہنمائی لیتا ہے اور سیاست پر تشدد ،عدم برداشت اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر عمل پیرا یو ٹرن خان کیا چاہتا ہے ۔حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کی ان خدشات سے متعلق تیس سال پہلے کی پیش گوئیاں سچ ثابت ہو رہی ہیں ۔یہ ہمارے پالیسی سازوں کے لئے چیلنج ہے کہ وہ یو ٹرن خان کو کیسے ڈیل کرتے ہیں ایسا نہ ہو کہ پالیسی ساز گہری سوچ میں مگن رہیں اور ملک کسی بڑے سانحہ سے( خدانخوستہ ) دوچار ہو جائے ۔