سندھ طاس معاہدہ کی وجہ سے پاکستان کے تین مشرقی دریاو¿ں کا پانی راوی، بیاس اورستلج بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاہدہ کے اثرات بالخصوص پنجاب کی مشرقی وادیوں پر ہی نہیں پڑے بلکہ پاکستان کے دیگر علاقے بھی کسی طور متاثر ہوئے۔ ان مسائل کے حل کےلئے ورلڈ بینک کنسوریشم کی طرف سے تربیلا اور منگلا ڈیموں کے علاوہ کچھ بیراج اور لنک کینال کےلئے امداد بھی دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی 1967ءمیں ورلڈ بینک کے تحت ہونے والی اسٹڈی میں پاکستان کو تنبیہہ کر دی گئی کہ ان منصوبوں سے مسلسل فائدہ اٹھانے کےلئے 1990ءتک کالاباغ ڈیم بنانا ہوگا اور اس کے دس سال بعد بھاشا، اس دوران پورے انڈس بیسن کی مکمل سٹڈی کرکے تمام آبی وسائل کے استعمال کےلئے ہمہ گیر پلاننگ کرنا ہوگی۔ عالمی ماہرین ایک دہائی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان سمیت کئی ممالک کو واٹر سٹریس ملک ہونے کی وارننگ دے رہے تھے۔ اگر ہم پاکستان کے آبی وسائل کو دیکھیں تو قدرت کی حددرجہ فیاضیوں کا امین بننا چاہیے تھا لیکن قدرت کی عنایتوں کی بے قدری کی وجہ سے آبی وسائل سے بھرپور خطہ مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔
پچھلے دو سالوں سے عالمی ماہرین کی وارننگ واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے بقراط نما ماہرین وسائل کی کمی اور اتفاقِ رائے کی شتونگڑی کا رونا روتے رہے۔ اس سال موسمیاتی تبدیلی نے شدید بارشوں سے پورے ملک کو آلودہ کر دیا ہے۔ اس بارانِ رحمت سے استفادہ کیا جاتا تو چاروں صوبوں کے آبی وسائل پورے سال کےلئے کافی تھے۔ اگر ہم نے ماہرین کی وارننگ کو سنجیدہ لیا ہوتا اور منصوبے بنائے ہوتے تو نہ بلوچستان سے معصوم عورتوں اور بچوں کی کیچڑ میں لت پت لاشیں نظر آتیں،نہ بالائی علاقوں میں رابطے منقطع ہوتے اور نہ ہی کراچی بھی پانی میں ڈوبتا لیکن غفلتِ مجرمانہ کے مرتکب ہونے کے باعث اربوں کھربوں کا نقصان ہی نہیں ہوا، سینکڑوں قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
ہمہ گیر پلاننگ بنانا تو دور کی بات ہے، سندھ طاس معاہدہ کی وجہ سے جو علاقے براہ راست متاثر ہو رہے تھے۔ ان علاقوں کے آبی مسائل کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دی گئی۔ راوی ستلج کی وادی کی آبی و جنگلی حیات کےلئے ایک قطرہ پانی بھی مہیا نہ کیا گیا بلکہ زرعی مقاصد کےلئے بھی ضرورت سے نصف پانی مہیا کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ راوی، بیاس اور ستلج کی وادی جو دنیا کی زرخیز ترین وادیوں میں شمار ہوتی تھی اور کسی بھی قحط کے دنوں میں برصغیر پاک وہند ہی نہیں پوری دنیا کےلئے غلہ مہیا کرتی تھی، اپنی زرخیزی کھوتی چلی گئی۔ زرعی مقاصد کےلئے زیرزمین پانی کے مسلسل استعمال کی وجہ سے پانی کی سطح بھی خطرناک حد تک گر چکی ہے بلکہ سیوریج کے پانی کی آلودگی سے راوی اور ستلج کے گرد تمام شہر اور دیہات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن محض رونے کے سوا کوئی لائحہ عمل بنایا ہی نہیں گیا۔ دریائے چناب کے آبی وسائل پر توجہ دی جاتی تو اس سے نہ صرف راوی ستلج کی وادی کی پیاس مٹ سکتی تھی بلکہ ان علاقوں میں گراو¿نڈ واٹر کی حالت بھی بہتر بنائی جا سکتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سیلاب کے دنوں میں چناب کا ضائع ہو کر سمندربرد ہو جانے والے پانی سے استفادہ بھی کیا جا سکتا تھا۔
اگر پاکستان کے آبی ماہرین آبی وسائل پر توجہ دیتے اور انہیں بروئے کار لانے کےلئے پلان بناتے تو دنیا کی یہ زرخیز وادی آج بھی پوری دنیا میں مثال ہوتی۔ سندھ طاس معاہدہ کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصہ میں آئے تھے۔ سندھ اور جہلم دریاو¿ں کا بڑا حصہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں سے گزرتا ہے۔ ان پر ڈیم بنانے کی سہولت موجود تھی چنانچہ تربیلا اور منگلا ڈیموں نے ان دریاو¿ں کے پانی کو بڑی حد تک مستعمل بنایا لیکن دریائے چناب مرالہ کے مقام پر پاکستان میں شامل ہوتا ہے۔ مرالہ کے مقام پر محض ایک بیراج ہی بنایا جا سکتا تھا۔ جب کہ فاضل سیلابی پانی تباہی پھیلاتا ہوا گزر جاتا ہے۔ دریائے چناب پر ڈیم بنانے کی گنجائش صرف چنیوٹ کے مقام پر نظر آتی ہے۔ وہاں بھی ماہرین ڈیم بننے سے وسیع زرخیز علاقے کو سیم زدہ ہونے کی خبر دیتے ہیں۔ موسم برسات میں دریائے چناب کے فاضل پانی کو راوی اور ستلج سے گزارا جا سکتا ہے۔ ڈیک، ایک اور بیشتر نالوں کو استعمال کرنے کےلئے علاوہ فلڈکینال بھی بنائی جا سکتی ہے جو دریائے چناب کے فاضل پانی کو راوی اور ستلج کی گزرگاہوں سے گزارتی ہوئی پنجند میں جا گرتی۔
اس طرح راوی اور ستلج کی گندگی کی صفائی بھی ہوتی، ماحولیات میں بھی مثبت تبدیلی آتی بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بہتر ہو سکتی تھی۔ وہ پانی جو ہمارے لئے بلائے جان بن جاتا ہے اس سے استفادہ کرکے ہم اپنی ماحولیات میں آئی خرابیوں کو درست کرنے کی سبیل پیدا کر سکتے تھے۔ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی ماہرین کی وارننگ کے نتائج نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں پچھلی دہائیوں کا گراف یکسر تبدیل کرکے رکھ دیں گی۔ اب وقت سوچ بچار کے بجائے عمل کا ہے۔ ان حالات میں ڈیموںکی تعمیر کے ساتھ مکمل ایکشن پلان بھی درکار ہے جس کے ذریعے ہم پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنا سکیں۔