”ایہہ گلاں ہن کرن دیاں نہیں“

دنیا بالخصوص پاکستان میں ماحولیات کی تبدیلی قدرت کی حکمت کے تناظر میں فکرمندی کا احساس اجاگر کرنے کے حوالے سے میرا خاص موضوع رہا ہے۔ ارضیاتی‘ فلکیاتی اور موسمیاتی و ماحولیاتی ماہرین گزشتہ ایک دہائی سے تسلسل کے ساتھ دہائی دے رہے ہیں کہ نظام قدرت میں موسموں کے تغیروتبدل اور زیرزمین پانی کی سطح کے معاملہ میں تیزی سے رونما ہونیوالی تبدیلیاں ہماری حیات و معاشرت پر غیرمعمولی منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ ان ماہرین کے بقول گرمی کا دورانیہ بتدریج بڑھ رہا ہے اور اسکے مقابل سردی کا دورانیہ سکڑ رہا ہے جو جہاں انسانی صحت و زندگی کے معمولات میں نمایاں تبدیلیوں کا باعث بنے گا وہیں زمینی نظام قدرت میں بھی غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہوںگی۔ گرمی کا دورانیہ بڑھنے سے سطح زمین پر گرمی کے شدید اثرات مرتب ہونگے اور گلیشئر پگھلنے سے سیلابی کیفیت پیدا ہونا معمول بن جائیگا جبکہ موسموں کے تغیروتبدل سے انسانوں کو نئے اور پیچیدہ امراض لاحق ہونگے اور انسانوں میں پیدا ہونیوالی اضطراری کیفیت دنیا میں جنگ و جدل کی نوبت لائے گی۔ 
بے شک خالقِ کائنات نے اپنی حکمت کے تحت نظامِ کائنات وضع کیا جو خالقِ کائنات کی منشاءاور حکمت کے مطابق ہی چل رہا ہے۔ اس میں ”کن فیکون“ والا گہرا فلسفہ کارفرما ہے۔ ہمیں نظام قدرت میں کسی ردوبدل کا تو ہرگز یارا نہیں کہ اس کیلئے ربِ کائنات ہی کارساز ہے مگر خالقِ کائنات نے اپنے بندوں کو ذہن رسا ضرور عطا کیا ہے تاکہ وہ کسی عارضے سے لڑ سکے، کسی آئی ناگہانی مصیبت کو ٹال سکے‘ کسی آزمائش میں سرخرو ہو سکے اور نظامِ قدرت میں موجود خزانوں کو حکمت و دانائی کے ساتھ بروئے کار لا سکے۔ موسمیاتی‘ فلکیاتی اور ارضیاتی ماہرین کی ایسی رپورٹیں فکرو آگہی کے دروازے کھول کر تحقیق کی متقاضی ہوتی ہیں چنانچہ اہل مغرب نے ایسی رپورٹوں کو مشعل راہ بنا کر موسمیاتی تغیروتبدل سے انسانی آبادیوں کو محفوظ بنانے کی ٹھوس حکمت عملی طے کرنے کی خاطر تحقیق کے دروازے وا کئے۔ 
موسمی تغیروتبدل میں غیرمعمولی بارشوں اور سیلابوں کی افتاد ٹوٹنا روزمرہ کا معمول بن سکتا ہے اس لئے بالخصوص مغربی معاشرہ نے ایسی قدرتی افتادوں سے ہونیوالے نقصانات کا حجم کم کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہوئی ہے۔ قدرتی وسائل میں ہوا کے بعد پانی کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے جس کے خزانے قدرت نے زیرزمین بھی چھپائے ہوئے ہیں اور آسمان سے نازل ہونیوالی بارشیں بھی پانی کے ذخائر بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ یہی پانی انسانوں کیلئے توانائی پیدا کرنے کا بھی ذریعہ ہے اور اجناس کی پیداوار کیلئے زمین کو زرخیز بھی رکھتا ہے۔ اگر یہ پانی کہیں بپھر جائے تو انسانوں کیلئے قہر بھی بن جاتا ہے۔ قدرت نے انسانی ذہن رسا میں یہی تو حکمت رکھی ہے کہ پانی کہیں بپھر جائے تو اسے کنٹرول کرنے کیلئے کون سی حکمت عملی بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے قدرت نے دریاﺅں اور پانی کے بہاﺅ کے دوسرے ذرائع پر ڈیمز تعمیر کرنے کا ہنر انسانی ذہن کو سجھایا جس میں حکمت یہی تھی کہ ”آم کے آم‘ گٹھلیوں کے دام“ کے مصداق ڈیمز کے پونڈز میں بارشوں اور سیلاب کا پانی بھی محفوظ ہو جائیگا جو خشک سالی کے دوران کام آئیگا جبکہ ڈیمز کے ذریعے حاصل ہونیوالی ہائیڈل بجلی سے توانائی کی ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہیں گی اور دھرتی جگ مگ جگ مگ بھی کرتی رہے گی۔ 
اس کیلئے مغربی دنیا نے تو اپنے وسائل و ذہانت کو بروئے کار لا کر خوب ترقی کی ہے مگر ہمارے اپنے خطہ میں موجود ممالک بھی ترقی کی اس دوڑ میں سبک خرام رہے ہیں۔ اس معاملہ پر میں گوگل پر سرچ کررہا تھا تو ڈیمز کے حوالے سے معلومات کے خزانے میری آنکھوں کے سامنے آگئے۔ ہمارے معاشرے میں پانی کی کمی بیشی جیسے مسائل میں گھرے کسی عام آدمی کو شاید یقین نہیں آئیگا کہ ہمارے ساتھ شہد سے میٹھی‘ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی رکھنے والے ہمارے برادر پڑوسی ملک چین نے اپنی آزادی سے اب تک کے 74 سال کے عرصہ میں اپنے دریاﺅں‘ نہروں‘ راجباہوں پر بائیس ہزار 104 چھوٹے بڑے ڈیمیز تعمیر کئے ہیں جبکہ اسکے ریزروائرز کی تعداد 80 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ چین کے یہ ڈیمز ہائیڈل بجلی کی پیداوار کے علاوہ فلڈ کنٹرول کرنے اور آبپاشی کیلئے بھی معاون بنتے ہیں۔ چین اس وقت اپنے ڈیمز سے دو لاکھ میگاواٹ بجلی حاصل کررہا ہے۔ 
اور رہا معاملہ بھارت کا جو شروع دن سے ہمارے ساتھ دشمنی نبھا رہا ہے اور ہماری سلامتی کمزور کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا‘ اس نے بھی اپنی تعمیر و ترقی کیلئے پانی کے قدرتی وسائل سے استفادہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسکے معاملہ میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق تقسیم ہند سے اب تک کے 75 سال کے عرصہ میں بھارت نے اپنے دریاﺅں اور پانی کے دوسرے وسائل پر پانچ ہزار 334 ڈیمز تعمیر کئے ہیں اور 447 بڑے ڈیمز ابھی بھارت کے مختلف دریاﺅں پر زیرتعمیر ہیں۔ بے شک ہمیں پانی میں ڈبونا اور خشک سالی کا شکار کرنا بھی ہماری سلامتی کیخلاف بھارت کے سازشی منصوبوں کا حصہ ہے مگر بھائی صاحب! ہم نے کبھی ایسی سازشوں کے توڑ کا کوئی تردد کیا؟ عالمی بنک کے ذریعے 1960ءمیں پاکستان اور بھارت کے مابین طے پانے والے سندھ طاس معاہدہ میں بھی بے شک بھارت کے حق میں ڈنڈی ماری گئی اور ہمارے تین دریاﺅں راوی‘ بیاس اور ستلج کا پانی مکمل اور مستقل طور پر بھارت کے حوالے کردیا گیا مگر ہم نے اس معاہدہ کے تحت اپنے حصے میں آنیوالے دریاﺅں پر بھلا کون سے نئے ڈیمز تعمیر کرلئے جبکہ اس معاہدہ کے تحت پہلے پاکستان کو ان دریاﺅں پر ڈیمز تعمیر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ ہم نے وہ حق استعمال نہیں کیا تو بھارت ہماری اس سازشی غفلت سے کیوں فائدہ نہ اٹھاتا۔ اس نے ڈیمز کے ڈھیر لگا دیئے اور غیرقانونی طور پر بھی کئی ڈیمز کھڑے کرلئے جن کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ہمارے مصاحبین نے ”گونگلوﺅں“ سے مٹی جھاڑنے میں مہارت تامہ حاصل کی۔ 
اگر بھارت کا ایجنڈا ہی ہماری سلامتی کمزور کرنے کا ہے تو وہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کیلئے ہمارے آدمیوں کو استعمال کرنے سمیت کوئی بھی سازش بروئے کار لا سکتا ہے اور لابھی رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ارض وطن پر حب الوطنی کے ایسے شاہکار کیوں نظر نہیں آپائے جو ہر بھارتی سازش کے آگے ڈٹ کر کھڑے نظر آتے ہوں۔ ہمیں تو اپنوں کو رگیدنے‘ چپیڑیں لگانے‘ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ہم اپنے ازلی دشمن کا سازشی ہاتھ کیونکر کھینچ پائیں گے۔ کیا 75 سال کے عرصہ میں ہم بھی ارض وطن کی تعمیر و ترقی کے جذبے کے تحت اپنے آبی وسائل پر ڈیمز کے ڈھیر نہیں لگا سکتے تھے مگر گوگل پر موجود ہمارا ریکارڈ تو یہ بتا رہا ہے کہ ہم نے اس پون صدی کے عرصہ کے دوران صرف ڈیڑھ سو چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کئے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ صرف دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا اپریشنل ہیں جن میں اتنی سلٹ جمع ہو چکی ہے کہ آئندہ چند سال تک یہ بھی ناکارہ ہو جائیں گے اور کسی سیلابی ریلے کا پانی اپنے پونڈز میں محفوظ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ 
بھئی! اس وقت ہم ملکی سطح پر سیلاب کی تباہ کاریوں کے جن دلدوز مراحل سے گزر رہے ہیں‘ خدا لگتی کہیئے‘ کیا یہ ہمارے لئے مکافات عمل نہیں؟ کالاباغ ڈیم کو تو چھوڑیئے اور دیامیر بھاشا ڈیم بھی ابھی تعمیر سے مراحل سے نہیں گزرا‘ ہمارے باقی جو 13, 12 ڈیمز اپریشنل ہیں وہ بھی کیا موجودہ سیلاب کی تباہ کاریاں روکنے یا کم کرنے میں معاون بن پائے ہیں۔ ہم قیامت کے جن مناظر کا سامنا کر رہے ہیں اور انسانی بے بسی کی جو تصویریں ہماری آنکھوں کے آگے پل پل نمودار ہو رہی ہیں کیا قدرت کی طرف سے یہ ہماری بداعمالیوں کا حساب کتاب نہیں ہو رہا۔ یہ بداعمالیاں انسان کی ذات سے بھی وابستہ ہوتی ہیں اور ادارہ جاتی خرابیوں کی صورت میں بھی خدا کی پھٹکار پر منتج ہوتی ہیں مگر اتنی پھٹکار کے بعد بھی ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق نہیں ہورہی اور ہماری قومی سیاسی قیادتوں نے آزمائش کے ان لمحات میں بھی باہم یکجا ہونے کے بجائے اپنے اپنے مفادات کے ٹوکرے اٹھا رکھے ہیں۔ ہمیں تو آج خدا کی رحمت کا طلب گار ہونا چاہیے مگر ہماری اس مقدس دھرتی کو زحمت بنانے میںکسی نے کوئی کسر تو نہیں چھوڑی جناب! اس کتھا کہانی میں: 
کس دا دوش اے‘ کس دا نہیں اے
ایہہ گلاں ہن کرن دیاں نہیں

ای پیپر دی نیشن