ریاست سے مت کھیلیں!!!! 

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی پنجاب اور  خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کے ساتھ مبینہ گفتگو سامنے آئی ہے۔ یہ بات چیت سن کر دل دہل جاتا ہے کہ آخر سیاست دان سیاسی مخالفت اور مخالفین کے اقتدار کو ختم کرنے اور اقتدار میں واپسی کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔ اب تک جتنی گفتگو سامنے آئی ہے اس کے بعد درد دل رکھنے والا ہر پاکستانی یقیناً پریشان ضرور ہے کہ آخر ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ اسے کٹ پیسٹ کہیں یا تروڑ مروڑ کر یا سیاق و سباق سے ہٹنے کا نام دیں آپ کسی بھی طریقے سے اس طرح کی کسی بھی بات چیت کا کوئی دفاع نہیں کر سکتے۔ اگر کٹ پیسٹ بھی ہے تو کیا اس ٹیلیفونک گفتگو میں یہ باتیں تو ہوئی ہیں۔ کیا آپ سیاسی مخالفت میں یہ موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ ریاست کو نقصان ہوتا رہے یہ بات کسی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔ اہم عہدوں پر خدمات انجام دینے والے کسی بھی شخص کا یہ رویہ قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہ عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ کسی بھی قسم کے حالات میں ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ چاہے کوئی بھی جماعت ہو کوئی بھی سیاست دان ہو، کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو۔ کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو۔ اگر سیاسی مخالفین سے بدلہ لینے کے لیے وفاقی حکومت کو کمزور کرنے کا بیانیے کو آگے بڑھایا جانا ہی اولین ترجیح بن جائے تو اس سے بڑا ظلم نہیں ہو سکتا۔ کروڑوں لوگوں کے اس ملک میں اقتدار کی جنگ نے آج ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ بارش ہوتی ہے تو مرتے ہیں بارش نہیں ہوتی تو مرتے ہیں۔ ہمارے پلے سوائے لڑائیوں کے کچھ بھی نہیں ہے۔ اسد عمر نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ ایسی بات چیت ہوئی ہے ورنہ وہ کبھی یہ نہ کہتے کہ کٹ پیسٹ کیا گیا ہے لیکن وہ یہ کیسے کہہ سکتے کہ اس میں کیا غلط ہے۔ 
اپنے مخصوص نقطہ نظر سے انہیں کچھ بھی غلط نہیں لگے گا شاید وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ کیونکہ گفتگو کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر خزانہ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا اس سے ریاست کو نقصان نہیں ہو گا تو آپکا سابق وفاقی وزیر خزانہ تسلیم کرتا ہے کہ نقصان ہو گا۔ یعنی ریاست کو نقصان ہو رہا ہے تو کوئی غلط بات نہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف آج یہاں تک پہنچی ہے تو اس میں ایسے ساتھیوں کی مہربانی شامل ہے۔ پی ٹی آئی والوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ غلطی تسلیم کرنے کے بجائے غلطی کے دفاع میں کئی غلطیاں کرتے ہیں۔ وقت گذرنے کے بعد جب تھوڑا زمین پر آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تو گڑبڑ ہوئی ہے پھر تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن اس وقت تک بہت وقت ضائع ہو چکا ہوتا ہے یعنی "ٹرین مس" ہو چکی ہوتی ہے۔ معزز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا کیس اس کی بڑی مثال ہے۔ بہت بعد میں تسلیم کیا گیا کہ ریفرنس کا فیصلہ غلط تھا۔ اب تو شیریں مزاری بھی اس حوالے سے گفتگو فرما رہی ہیں۔ اب ایسی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں لڑائی کے بعد یاد آنے والے مکے بارے تو آپ نے بہت کچھ سن رکھا ہو گا۔ شہباز گل والے کیس کو بھی دیکھیں پہلے کہا کہ کچھ غلط نہیں پھر تسلیم کیا کہ اسے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا پھر اس بیان کی حمایت میں عوام کو سڑکوں پر بھی لے آئے اب سننے میں آ رہا ہے کہ شہباز گل کے وکیل غیر مشروط معافی کی پیشکش کر رہے ہیں۔ 
یہ گفتگو تو پڑھتا جا شرماتا جا پر سو فیصد پورا اترتی ہے۔"شوکت ترین نے محسن لغاری کو کہتے ہیں یہ جو آئی ایم ایف کو 750 ارب کی کمٹمنٹ دی ہے آپ سب نے سائن کیا ہے، آپ نے اب کہنا ہے کہ ہم نے جو کمٹمنٹ دی تھی وہ سیلاب سے پہلے دی تھی۔ اب سیلاب کی وجہ سے بہت پیسا خرچ کرنا پڑیگا۔ اب ہم یہ کمٹمنٹ پوری نہیں کرپائیں گے، آپ نے یہی لکھنا ہے اور کچھ نہیں کرنا۔
شوکت ترین کے کہنے پر  محسن لغاری نے جی بالکل کہہ کر جواب دیا۔ شوکت ترین نے گفتگو میں مزید  کہا کہ ہم سب چاہتے ہیں ان پر دباؤ پڑے، یہ ہمیں اندر کرا رہے ہیں اور ہم پر دہشتگردی کے الزامات لگا رہے ہیں، یہ بالکل اسکاٹ فری جارہے ہیں یہ نہیں ہونے دینا ہے۔
سابق وزیر خزانہ نے محسن لغاری کو کہا کہ تیموربھی ایک گھنٹے میں کرکے بھیج رہاہے آپ بھی ذراکہیں مجھے بھیج دیں، پھر ہم یہ کر کے اسے وفاقی حکومت کو بھیج دیں گے ، پھر آئی ایم ایف نمائندوں کو جاری کردیں گے۔ شوکت ترین کی بات پر وزیر خزانہ پنجاب محسن لغاری نے سوال کیا کہ کیا اس سے ریاست کونقصان نہیں ہوگا؟ اس پر شوکت ترین نے کہا کہ یہ جس طرح چیئرمین اور دیگرکو ٹریٹ کررہے ہیں، اس سے ریاست کونقصان نہیں ہورہا ؟ دیکھویہ تو ضرور ہوگا کہ آئی ایم ایف کہے گا  پیسے کہاں سے پورے کریں گے،  یہ منی بجٹ لے کرآئیں گے، یہ ہمیں مس ٹریٹ اور  ریاست کے نام پر بلیک میل کر رہے ہیں، ہم ان کی مدد کرتے جائیں یہ تو نہیں ہوسکتا اور یہ ہم نے کل طے کیا ہے۔شوکت ترین کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایم ایف کو ریلیز کرنا ہے یا نہیں یہ ہم چیئرمین سے پوچھ لیں گے۔اس پر محسن لغاری  نے کہا کہ سوشل میڈیاسے زیادہ پاورفل ٹول ہی کوئی نہیں، شوکت ترین نے جواباً کہا کہ ہاں تو ہمیں ریلیزکرنے کی ضرورت ہی نہیں وہ سوشل میڈیا خودہی کردے گا، تیمور کہہ رہا تھا اور میں اس کے نمبر ٹو کو بہتر جانتا ہوں وہ ویسے ہی لیک کردے گا، ہم ایسا سین کریں گے کہ یہ نہ نظر آئے  کہ ہم ریاست کو نقصان پہنچا رہے ہیں، آپ دے نہیں سکیں گے تو آپ کی جو کمٹمنٹ ہے اس کا مطلب ہے زیرو"۔
یہ گفتگو آپ سن چکے ہوں گے لیکن یہاں شامل کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگوں کو یاد کروانے کے لیے بوقت ضرورت فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ایسے واقعات کو صرف میڈیا کی حد تک نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ ایسے واقعات کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمشن قائم کیا جائے جو مخصوص وقت میں ایسے کیسز کا فیصلہ کرے۔ اسے ثابت کرنا چاہیے اور اگر ثابت نہیں ہوتا تو پھر ایسا کرنے والوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایسی غلطیوں پر کسی اور کی غلطیوں کو دلیل کے طور پر پیش کرنا کوئی بہت قابل فخر بات نہیں ہے۔ آپ اس لیے نہیں آئے تھے کہ اپنے سیاسی حریفوں کی ہر غلطی کو دہرانا ہے بلکہ آپ تو ایسے کاموں کا سلسلہ بند کرنے کے لیے آئے تھے۔ اب ایک مرتبہ پھر گیند اداروں میں کے کورٹ میں ہے۔ سیاست دانوں سے گذارش ہے اپنی سیاسی لڑائیوں میں ریاست سے مت کھیلیں۔

ای پیپر دی نیشن