باپ نے الٹیاں کروائیں، خالی پیٹ نے جان لے لی

عیشہ پیرزادہ
گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک دس سالہ بچہ بھوک کی بناء پر جاں کی بازی ہار گیا۔ غربت کی چکی میں پسے معصوم  بچوں کی ایسی کہانیاں اکثر ہمارے اردگرد گھومتی ہیں۔  لیکن دس سالہ فیضان کی موت کا المیہ کچھ مختلف ہے جسے سن کر آنکھیں نم ہو گئیں۔ اسلام پورہ کے رہائشی فیضان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک مزدور کی اولاد تھا اور کئی روز سے فاقے کرنے پر مجبور بھی۔ ایک رات پیٹ کی آگ کے آگے مجبور ہو کر فیضان نے ہمسائے کے گھر سے چوری چھپے چاول کھائے تو یہ بیچارے بچے کا قصور بن گیا۔ صبح ہوتے ہی  ہمسایوں نے فیضان کے والد محنت کش عمران کو شکایت لگائی باپ نے بیٹے کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے اس کو قے کرائی اور بچوں کو گھربند کرکے کام کاج کی تلاش میں چلا گیا۔ بھوک سے نڈھال دس سالہ فیضان چھوٹے بہن بھائی کے سامنے بھوکا پیاسا دم توڑ گیا، اطلاع پر ریسیکو1122اہلکار نے بچے کی موت کی تصدیق کی تو پولیس بھی پہنچ گئی۔ پولیس تحقیق میں انکشاف ہوا محنت کش عمران کی بیوی نے تین سال قبل بچوں کو خاوند کے پاس چھوڑکردوسری شادی کرلی۔ عمران محنت مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالتا لیکن گھر میں اکثر فاقے رہتے عمران کے دوبیٹے اور ایک بیٹی کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہ تھا خوراک کی عدم دستیابی سے بچوں کی نشوونما متاثر تھی۔ فیضان کی موت کی خبر نے لوگوں کو دہلا کررکھ دیاہے۔
پاکستان میں حالیہ بڑھتی مہنگائی نے ایک اور بچے کو اپنا شکار بنا ڈالا۔ غربت کی شرح میں خاصا اضافہ ہو ا ہے۔ اس وقت پاکستان میں غربت کی شرح 37.2 فیصد ہے۔ جس کی وجہ سے محنت کش طبقہ کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا بھی محال ہو چکا ہے۔ جبکہ ستم ظریفی یہ کہ گزشتہ حکومت نے کم سے کم آمدنی تیس ہزار سے بڑھا کر صرف 32000 مقرر کی ہے۔ 
عالم یہ ہے کہ اتنے سے پیسوں میں گزارا ناممکن سی بات ہے۔   دہاڑی دار، مزدور طبقہ  جس کے گھر ایک پنکھا اور ایک بلب چلتا ہے اس کا بل آٹھ ہزار آئے گا ، جبکہ اشیائے خوردونوش خصوصا  بنیادی اجناس کی قیمتوں میں ہوش رباء اضافے نے غریب کے بچے کو پانی کے ساتھ روٹی کھانے تک سے محروم کر دیا ہے۔ مہنگائی ہر دور کا حصہ رہی ہے البتہ پاکستان چونکہ زرعی ملک ہے تو کچھ اشیاء مثلاََ آٹا، گھی، چاول، چند ایک دالیں ،آلو اور پیاز ہر کسی کو با آسانی دستیاب تھے۔ 
کچھ نہ ہو تو کھانے کے لیے آٹا میسر ہی تھا۔ سنتے تھے کے غریب کے بچے پانی کے ساتھ روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ لیکن اب ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں سوکھی روٹی بھی میسر نہیں۔فیضان ایک معصوم بچہ تھا جو کئی روز خالی پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمسائے کے چاول کھانے پر مجبور ہوا۔ اس بد بخت  ہمسائے  پر افسوس  ہی کیا جا سکتا ہے جو کئی روز سے بھوکے بچے کی موت کا سبب بنا۔ واللہ عالم کہ ہمسائے نے  بچے کے باپ کو کیا طعنے دیئے کہ اس نے غیرت میں آکر بچے کو الٹیاں کروا دیں۔ ہائے کیا وہ وقت ہو گا کہ کئی دنوں سے خالی پیٹ ایک بار پھر آگ اگلنے لگا ہو۔ بند گھر میں قید بھوکا پیاسا بچہ بے بسی میں دم توڑ گیا۔نوشہرہ ورکاں کا فیضان واحد بچہ نہیں تھا، اس جیسے کئی بچے اپنے اپنے حصے کی قربانیاں دینے پر مجبور ہیں۔ 
کم آمدنی اور بڑھتے اخراجات کے باعث والدین بچوں کو سکول نہ بھیجنے پر مجبور ہیں۔24 کروڑ چالیس لاکھ بچے  تعلیم سے محروم ہیں۔ 
میرے چمن کے پھول ملازمت کرنے پر اداس ہیں۔گاڑیوں کی ورک شاپ پر یہ چھوٹو میلے کچلے کپڑوں میں صبح سے رات تک محنت کرتے ہیں۔ کہیں یہ ننھے ہاتھوں سے بھٹوں پر اینٹیں بناتے تو کہیں سگنل پر رکی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ملتے ہیں۔ گھروں میں اب چھوٹی بچیوں کو کام کاج کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ان سے کام دس لوگوں کا لے کر رات کو ایک وقت کا دھتکارا  ہواکھانا نصیب ہوتا ہے۔ 
بڑے بڑے بنگلوں سے نکلتی بے بس و لاچار  غریب بچیوں کی تشدد زدہ کہانیاں ہمارے آس پاس  روزگردش کر رہی ہیں۔
نئی نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ ہے جو آگے چل کر ملک کا مستقبل سنوارتی ہے۔ میرے وطن کے لیے یہ پھول جو حالات کی چکی میں پس رہے ہیں وہ ملک کا مستقبل کیسے روشن کریں گے۔ 
 فیضان کی بے بس موت نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔ کیا موجودہ حالات کی نوعیت انتہاء پر ہے یا ابھی مزید سخت حالات دیکھنے کے لیے یہ آنکھیں کھلی ہیں؟ ریاست ماں جیسا کردار کب نبھائے گی؟

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...