عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں رہائی اور سائفر کیس میں گرفتاری

Aug 30, 2023

اداریہ

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر چلنے والا توشہ خانہ کیس ایک بار پھر ذرائع ابلاغ میں اہم ترین موضوع بن کر زیر بحث آگیا ہے اور اس بار اس کیس کے موضوعِ بحث بننے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کی معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حکم جاری کیا گیا تاہم اس حکم کے منظر عام پر آنے کے کچھ ہی دیر بعد اسلام آباد کی ایک خصوصی عدالت نے انھیں سائفر گمشدگی کیس میں اٹک جیل ہی میں زیر حراست رکھنے اور 30 اگست (بدھ) کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش کرنے کے احکام جاری کر دیے۔ آفیشل سیکرٹس ایکٹ عدالت کے جج عبدالحسنات محمد ذوالقرنین کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان سائفر گمشدگی کیس میں نامزد ہیں اور زیر تفتیش ہیں چنانچہ انھیں اس کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر اٹک جیل میں ہی رکھا جائے۔ عمران خان کے علاوہ سائفر گمشدگی کیس میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی پہلے ہی جسمانی ریمانڈ پر ہیں جبکہ اسد عمر ضمانت پر ہیں۔ اسی کیس میں عمران خان سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی ٹیم دو مرتبہ اٹک جیل میں تفتیش کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے مذکورہ حکم جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ تاثر دینا شروع کردیا جیسے عمران خان کو اس کیس سے بری کردیا گیا ہے یا ان کی سزا معاف ہوگئی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، سزا کی معطلی کا مطلب سزا معاف ہونا ہرگز نہیں اور جب تک یہ سزا قائم ہے اس وقت تک عمران خان انتخابات کے لیے نا اہل ہی رہیں گے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ توشہ خانہ کیس ختم نہیں ہوا بلکہ یہ کیس اسی طرح چلتا رہے گا۔ ہاں، قانون میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ اگر کسی مجرم کو تین سال سے کم عرصے کی سزا ہو تو اس کو عدالت کی طرف سے ضمانت کا دیا جانا ایک عمومی معاملہ ہے اور عمران خان کے سلسلے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں لی جانی چاہیے کہ عمران خان بری ہو گئے ہیں اور اس کے ساتھ ان کی نا اہلی بھی ختم ہو گئی ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ آرٹیکل 62 ایچ کے مطابق اگر مجرم کی سزا دو سال سے زیادہ ہو تو وہ نا اہل ہو جاتا ہے۔ عمران خان کو ضابطہ ہائے فوجداری کی دفعہ 426 کے مطابق تین سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہوچکے ہیں اور ان کی یہ نااہلی دو صورتوں میں ہی ختم ہوسکتی ہے: پہلی صورت یہ ہے کہ ان پر جو مقدمہ چل رہا ہے اس میں وہ بے گناہ ثابت ہو جائیں اور ان کی بریت کے ساتھ ہی ان کی نااہلی بھی ختم ہو جائے، اور دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ انھیں جتنی مدت کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے کہ وہ مدت مکمل ہو جائے تو اس کے بعد ان پر نااہلی کی تلوار خود بخود ہٹ جائے گی اور پھر وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ عمران خان کو الیکشن کمیشن نے پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے رکھا ہے، لہٰذا اگر وہ مذکورہ مقدمے میں بری نہیں ہوتے تو ان کے کارکنوں کو پانچ سال انتظار کرنا ہوگا۔
اصل میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین کی دو شقوں کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔ ان میں ایک شق 62 پی ہے جس کے تحت عمران خان کی معطلی ان کی قومی اسمبلی کی نشست کی باقی ماندہ مدت کے لیے تھی۔ یہ معاملہ تو ویسے ہی اب ختم ہوچکا ہے کیونکہ جس اسمبلی میں عمران خان کی مذکورہ نشست تھی وہ اپنی آئینی مدت پوری کر کے ختم ہوچکی ہے۔ دوسری شق جس کے تحت عمران خان کو زیادہ مدت کے لیے نااہلی کا سامنا ہے وہ دفع 62 ایچ کے تحت ہے۔ سیشن جج اسلام آباد کے حکم کے مطابق اس شق کے تحت نا اہلی کی مدت پانچ برس ہے۔ اس پانچ برس کی سزا کا کسی نشست کی مدت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ پانچ برس میں ہی مکمل ہوگی۔ اس کے ختم ہونے کی دیگر صورت وہی ہوسکتی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کو مختلف معاملات میں عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جتنی رعایتیں ملی ہیں وہ ان سے پہلے کسی بھی سیاست دان کو نہیں ملیں۔ اس سب کے باوجود ان کی جماعت اور کارکنوں نے ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک زہریلی پروپیگنڈا مہم شروع کررکھی ہے جو کسی بھی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ پی ٹی آئی کے کارکن جو کچھ کررہے ہیں غیر جانبدار تجزبہ کار اس سب کے لیے عمران خان کو پوری طرح ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ عمران خان اگر واقعی پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے رویے میں بھی تبدیلی لانا ہوگی اور اس کے ساتھ اپنے کارکنوں کو بھی یہ سمجھانا ہوگا کہ ریاست اور اس کے اداروں کے ساتھ تصادم کی فضا پیدا کر کے ان لوگوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ عمران خان پر چلنے والے مقدمات عدالتوں کے سامنے ہیں، لہٰذا ان کے کارکنوں کو صبر سے کام لینا چاہیے اور اپنی پروپیگنڈا مہم سے باز آنا چاہیے۔

مزیدخبریں