ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور اپنے شہریوں کا ایک ماں کی طرح خیال رکھتی ہے- پاکستان کا شمار ان بدقسمت ملکوں میں کیا جاتا ہے جہاں پر شہریوں کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی زیادہ سنگدلانہ سلوک کیا جاتا ہے- ریاست کا آئین شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے مگر پاکستان میں حکمران اشرافیہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے اپنے شہریوں کو لوٹتے ہیں اور ان کو بنیادی آئینی حقوق سے محروم رکھتے ہیں- پاکستان کی کسی حکومت نے بجلی کی سستی پیداوار اور سپلائی پر توجہ نہیں دی- گزشتہ نصف صدی کے دوران کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا- کالا باغ ڈیم کو سیاسی مفادات کے تابع متنازعہ بنا دیا گیا۔ 1994ء میں آئی پی پیز سے بجلی پیدا کرنے کے مہنگے معاہدے کیے گئے- عوام کے مفاد کو یکسر نظر انداز کیا گیا- بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی استحصال پر مبنی ظالمانہ شرائط کو تسلیم کیا گیا- بجلی کی قیمت کی ڈالروں میں ادائیگی عوام دشمن فیصلہ ہے- اسی طرح آئی پی پیز کو یہ گارنٹی دی گئی کہ ان کو یونٹ کی کیپیسٹی کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کی جائے گی چاہے حکومت بجلی نہ خریدے- اس عوامی استحصال کو ختم کرانے کے لیے عوام دوست محب وطن بیرسٹر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے 2019ء میں سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی اور نیب میں بھی درخواست دی کہ حکومت پاکستان کو آئی پی پیز کو اضافی ادائیگی سے روکا جائے حکومت نے ان آئی پی پیز کو 664 ارب روپے ادا کر دیئے جو بجلی پیدا نہیں کر رہے تھے- اس ظلم بلکہ کھلی ڈکیتی کا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا تھا- لوٹ مار کرنے والوں کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں اس لیے کرنل صاحب کی اپیلوں کی کوئی شنوائی نہ ہو سکی- پاکستان کے لیڈر بلند بانگ دعوے بہت کرتے ہیں مگر بجلی کی چوری لائین لاسز کو کوئی حکومت کنٹرول نہ کر سکی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بجلی چوری کرنے والوں کو واپڈا کے افسروں اور دیگر با اثر افراد کی سر پرستی حاصل ہوتی ہے- بجلی چوری کا بوجھ ان صارفین پر ڈال دیا جاتا رہا جو بجلی کے بل بر وقت ادا کرتے ہیں- پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 53 روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ بھارت میں ایک یونٹ بجلی کی قیمت 17 روپے اور بنگلہ دیش میں 13 روپے افغانستان میں 8 روپے اور ایران میں 10 روپے ہے- یہ تخمینہ پاکستانی کرنسی کے حساب سے لگایا گیا ہے- بجلی کے بل عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں اور انہوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ملک گیر احتجاج شروع کر دیا ہے- عوام بجلی کے بلوں کو نذر آتش کر رہے ہیں- اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو مہنگائی سے عاجز آئے عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچ جائیں گے -
المناک امر یہ ہے کہ ایک جانب عوام کو زندہ درگور کیا جارہا ہے اور دوسری جانب واپڈا کے ملازمین ججوں جرنیلوں بیوروکریٹس اور پارلیمنٹیرینز کو بجلی مفت دی جا رہی ہے- یہ سنگدلانہ رویہ اب عوام کے لیے قابل قبول نہیں رہا- اگر آصف علی زرداری میاں نواز شریف اور عمران خان ہنگامی بنیادوں پر پانی کوئلے ونڈ اور سولر بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کو آگے بڑھاتے تو عوام کو آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں سے نجات مل چکی ہوتی اور عوام بجلی کے بلوں کے لیے ذلیل وخوار نہ ہوتے- افسوس کوئی لیڈر عوام کو آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کے شکنجے سے آزاد نہ کرا سکا- عوام کی حقیقی آزادی معاشی آزادی ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام طویل عرصے سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے معاشی غلام ہیں-یہ تینوں لیڈر عوام تاریخ اور اللہ کی عدالت میں جوابدہ ہوں گے- عوامی غصے کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا اور اس میں بجلی کی پیداوار اور لاگت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا - نگران حکومت نے عوام کے لیے ریلیف پیکج تیار کیا ہے جس کی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائے گی - عوامی احتجاج پورے ملک میں پھیل رہا ہے- عوام کو اگر بجلی کے بلوں میں خاطر خواہ ریلیف نہ دیا گیا تو وہ سول نافرمانی پر مجبور ہو جائیں گے- عوام کا جائز مطالبہ ہے کہ بجلی کا ایک ہی ریٹ ہونا چاہیے اور سلیب سسٹم ختم کیا جائے اور بجلی کے بلوں پر عائد مختلف نوعیت بلا جواز ٹیکس ختم کیے جائیں- حکمران اشرافیہ آنکھیں بند کر کے بجلی پٹرول گیس اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔ ان کو عوامی غیض و غضب کا اندازہ ہی نہیں ہے-عوام بجلی کے بل ادا کریں تو کھانے پینے کیلئے انکے پاس کچھ نہیں بچتا - حکومتی اہل کاروں کا فرض ہے کہ وہ عام آدمی کے گھر کا بجٹ تشکیل دیں اور اس پر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا وہ برداشت کر سکے - جماعت اسلامی خراج تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے ہمیشہ عوام کے مسائل کے سلسلے میں توانا آواز اٹھائی ہے- جماعت اسلامی نے کمر توڑ مہنگائی اور بجلی کے بلوں کے سلسلے میں ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے- پاکستان کے عوام کو اپنے مسائل کے حل کیلئے جماعت اسلامی سے تعاون کرنا چاہیے اور احتجاج میں شریک ہونا چاہیے- پاکستان کے عوام اگر عزت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ان کو تقسیم ہونے کے بجائے اپنے مسائل کے حوالے سے متحد ہونا چاہیے - اس عوامی اتحاد کا نام پاکستان صارفین اتحاد رکھا جا سکتا ہے- جب تک حکمران اشرافیہ پر عوام کا دبائونہیں ہوگا، ظالم سنگدل اشرافیہ ان کو لوٹتی رہے گی اور ان کے حقوق غصب ہوتے رہیں گے- اگر عوام کا دباو گزشتہ حکومتوں پر ہوتا تو آج انہیں سڑکوں پر خوار نہ ہونا پڑتا- حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، عوام کا اپنے حقوق کے حوالے سے دبائو ہر صورت قائم رہنا چاہیے - سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے وابستگی عوامی مسائل کے حل کی شرط پر ہونی چاہیے - عوام کا مقدر عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ حکومت پر دبائو رکھیں گے تو ان کو بنیادی حقوق اور سہولیات حاصل ہو سکیں گی- عوامی اتحاد ہی مسائل کا بہترین حل ہے- پاکستان کے نوجوان جاگیں اور عوام کے مسائل کے ساتھ کھڑے ہو جائیں- ان کا ضمیر بھی مطمئن ہوگا اور اللہ بھی ان سے راضی ہوگا- حکمران اشرافیہ اللہ کے عذاب سے ڈرے۔ عوام کو نچوڑنے کی بجائے زرعی آمدن اور ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس لگائے- ڈائریکٹ ٹیکس نیٹ وسیع کرے اور پاکستان بھر کے 30 لاکھ دکانداروں سے ٹیکس وصول کرے۔ اور عیش وعشرت کی بجائے سادگی اور کفایت شعاری کی جانب ائے- وی آئی پی کلچر مکمل طور پر ختم کیا جائے -
میں خون بیچ کر روٹی خرید لایا ہوں
امیر شہر بتا یہ حلال ہے کہ نہیں
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا
٭…٭…٭