بے شک آج بجلی کے بلوں سے بلبلاتے عوام نے بھی ہماری آنیوالی سیاست کے خدوخال نمایاں کئے ہیں تاہم وادیٔ صحافت میں ایک متحرک سیاسی رپورٹر بالخصوص اپوزیشن کی سیاست کو کور کرنے والے رپورٹر کی حیثیت سے 1977ء سے 2006ء تک کے سیاسی حقائق و معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور حکومتی و اپوزیشن اتحادوں کے بننے‘ ٹوٹنے کا عینی شاہد ہونے کے ناطے مجھے سیاست کے بدلتے دھارے میں مستقبل کی سیاست کا جو نقشہ بنتا نظر آرہا ہے‘ وہ میں آج آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔
میری ہمیشہ سے یہ فکرمندی رہی ہے کہ پارلیمانی جمہوری ادوار میں ایک دوسرے کے بخیئے ادھیڑنے اور مرغوں کی طرح باہم لڑتے ہوئے ’’کھے‘‘ اپنے ہی سروں پر ڈالنے والے سیاست دان اپنی ان کردنیوں کے باعث جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا موقع فراہم کرنے کے بعد ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہو کر بحالی ٔ جمہوریت کی طویل جدوجہد کیلئے خود کو آمادہ و تیار کرلیتے ہیں تو کیا ہی اچھا ہو کہ وہ سلطانی جمہور میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتے ہوئے ہی باہم شیرو شکر ہو جائیں۔ اس طرح نہ کسی کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کیلئے کوئی ماورائے آئین اقدام اٹھانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کا الزام جمہوریت سے وابستہ سیاست دانوں کے سر آئیگا۔
مگر جناب! میری فکرمندی سے کیا ہو سکتا ہے‘ ہماری سیاسی قیادتوں کے لچھن تو ویسے کے ویسے ہی رہیں گے۔ ان سیاسی قائدین کے پیروکار سیاسی کارکن انکی سیاست کو اصولی‘ نظریاتی‘ انقلابی سیاست سمجھ کر باہم دست و گریباں رہتے ہیں‘ منافرت کا ماحول اپنے گھروں‘ عزیزو اقارب اور دوست احباب تک میں گرمائے رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھنے اور ہاتھ تک ملانے کے بھی روادار نہیں ہوتے اور جن سیاسی قیادتوں کی تاثر دیتی اصولی سیاست کے اسیر ہو کر وہ اپنی زندگیوں کو زہر آلود اور محرومیوں کی آماجگاہ بنا لیتے ہیں‘ وہ سیاسی قیادتیں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے‘ معانقے کرنے اور کسی نہ کسی سیاسی پلیٹ فارم پر باہم متحد ہو کر سیاست کاری کا منفعت بخش کاروبار چمکانے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگاتیں۔ اس تناظر میں بنتے‘ بگڑتے سیاسی اتحادوں کی پوری تاریخ میری آنکھوں کے سامنے ہے جو بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کے اس معروف مقولے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہی رہتی ہے کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں۔ آج کے حریف آنیوالی کل ایک دوسرے کے حلیف ہو سکتے ہیں اور گزری کل کے حلیف آج ایک دوسرے کے حریف بن کر باہم سر پھٹول کرتے نظر آسکتے ہیں۔ بھئی! اس مفاداتی کھیل تماشے میں نظریاتی‘ اصولی سیاست کہاں سے در آئی جسے بے لوث سیاسی کارکن اپنی اپنی قیادتوں کے بدلتے سیاسی رنگ دیکھ کر بھی پلّو سے باندھے رکھتے ہیں اور اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگیاں برباد کر بیٹھتے ہیں۔
ہماری آج کی نوجوان نسل کو سیاسی اتحادوں کے بننے بگڑنے کے پس منظر کا کم ہی علم ہوگا اس لئے انہیں اپنی سیاسی قیادتوں کی ’’جگلری‘‘ سے بھی کم ہی آشنائی ہوگی۔ میں اپنی آنکھوں دیکھی اور بھگتی ہوئی 1977ء کی تحریک نظام مصطفی سے اپنے مشاہدے کا آغاز کرتا ہوں۔ یہ تحریک ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف انکی مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک سیاسی اتحاد پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) تشکیل دیکر انتخابی سیاسی حکمت عملی کے تحت شروع کی گئی۔ یہ اتحاد 9 جماعتوں پر مشتمل تھا جسے 9 ستاروں کا نام دیا گیا اور تاثر دیا گیا کہ یہ 9 ستارے ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ کی خاطر متحد ہوئے ہیں کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے انکے بقول ایک شتربے مہار ملحد معاشرہ تشکیل دے دیا۔ درحقیقت اس تحریک کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو کے قبل ازوقت اعلان کردہ انتخابات میں باہم مل کر انہیں شکست دینے کا تھا جس کیلئے عوام کے مذہبی جذبات بھڑکائے گئے۔ اس تحریک کے سرخیل مفتی محمود‘ ایئرمارشل اصغر خان‘ پیر صاحب پگاڑا شریف‘ خاکسار تحریک کے خان محمد اشرف خان‘ جمعیت علماء پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی‘ جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد‘ عوامی نیشنل پارٹی کے خان عبدالولی خان اور خیر سے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان تھے۔ میں نے اس تحریک کو اس طرح بھگتا کہ 23 مارچ 1977ء کو تحریک استقلال کے قائد ائرمارشل اصغر خان کے لاہور ہائیکورٹ کے باہر اعلان کردہ جلوس کا مشاہدہ کرنے کیلئے وہاں جا پہنچا۔ پولیس کی سخت شیلنگ اور لاٹھی چارج کے باعث اصغر خان تو جلوس کی قیادت کیلئے پہنچ ہی نہ پائے مگر پی این اے کے وہاں موجود قائدین اور کارکنوں کے ساتھ پولیس نے بندوق کی نالی کا رخ میری طرف تان کر مجھے بھی دھر لیا اور پولیس وین میں ٹھونس دیا۔ شب بسری سخت جسمانی تشدد کے ساتھ پولیس تھانہ سول لائنز میں ہوئی اور اگلے روز ہم زیرحراست ’’کارکنوں‘‘ کو کیمپ جیل منتقل کر دیا گیا۔ وہاں پی این اے کی قیادتوں سمیت نظربند سیاسی کارکنوں کے ساتھ جو ’’حسن سلوک‘‘ روا رکھا جاتا تھا‘ آج اٹک جیل میں عمران خان کے مرغن عیش و عشرت کی داستانیں سن کر قیدی کی زندگی پر رشک آتا ہے۔
مذہبی جذبات کو ابھارنے والی اس جارحانہ تحریک کے باوجود پی این اے کو 1977ء کے انتخابات میں بھاری ’’اکثریت‘‘ کے ساتھ شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد یہ تحریک انتخابی دھاندلیوں کیخلاف پرتشدد تحریک کے قالب میں ڈھل گئی اور پھر پانچ جولائی 1977ء کو ضیاء الحق کے ہاتھوں جمہوریت کی بساط الٹ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی انا کی بھینٹ چڑھ کر چار اپریل1979ء کو تختہ دار پر لٹک گئے جس کے بعد ریاکارانہ مفاداتی سیاست کے جلوئوں کا آغاز ہوا۔ اس کیلئے پیپلزپارٹی اور پی این اے میں شامل اسکی مخالف بیشتر جماعتوں نے باہم مل کر اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی کو تشکیل دیا۔ چنانچہ جو ایئرمارشل اصغر خان پی این اے کی تحریک کے دوران بھٹو کو کوہالہ کے پل پر لٹکانے کے اعلانات کیا کرتے تھے‘ وہ بحالی ٔجمہوریت کیلئے اسی بھٹو کی پیپلزپارٹی کے ہمنوا ہو گئے اور بھٹو کے مخالف دوسرے سیاسی قائدین بشمول نوابزادہ نصراللہ خان‘ سردار شیرباز خان مزاری‘ نسیم ولی خان‘ خواجہ خیرالدین‘ ملک محمد قاسم‘ معراج محمد خان‘ فتحیاب علی خان‘ حتٰی کہ نواب اکبر بگتی بھی اسی بھٹو کی پارٹی کے سیاسی اتحادی بن گئے۔ یہ اتحاد 1988ء کے انتخابات تک برقرار رہا اور ان انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایم آر ڈی میں اپنی اتحادی جماعتوں کو ٹھینگا دکھا دیا چنانچہ اسکی کچھ جماعتیں نوتشکیل کردہ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا حصہ بن کر میاں نوازشریف کے جلو میں پیپلزپارٹی کے مدمقابل آگئیں۔ تحریک استقلال کا ایک گروپ فدامحمد خان کی مسلم لیگ میں ضم ہو کر آئی جے آئی کا حصہ بنا۔ اس طرح میاں نوازشریف کی قیادت میں آئی جے آئی کو پنجاب میں حکمرانی کا موقع مل گیا۔ پھر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں وفاق میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کی بساط لپٹی تو صوبائی حکومتیں بھی اسکی زد میں آئیں۔
…………………… (جاری)
جنرل ضیاء الحق کے ڈسے ہوئے ایک شریف الفنس وزیراعظم محمد خان جونیجو بھی تھے جن کی قیادت میں مسلم لیگ (جونیجو گروپ‘ تشکیل پایا تھا۔ نوازشریف اور فدامحمد خان اسی لیگ کا حصہ تھے۔ مگر جونیجو کے اقتدار سے ہٹتے ہی ’’نظریاتی‘‘ سیاست نے اپنا قبلہ تبدیل کیا اور نوازشریف کی قیادت میں آئی جے آئی تشکیل پا گئی جس کے رنگ ڈھنگ پی این اے والے ہی تھے۔ جونیجو اس اتحاد کیخلاف سرگرم ہوئے اور تحریک استقلال اور جمعیت علماء پاکستان کے ساتھ مل کر نیا اتحاد عوامی جمہوری اتحاد تشکیل دے دیا مگر انتخابات سے قبل ہی اس اتحاد کی بساط لپیٹ دی گئی۔ 90ء کے انتخابات میں نوازشریف کا وزارت عظمیٰ کا خواب پورا ہو گیا تو انکے مقابل تحریک استقلال اور پیپلزپارٹی نے مل کر اپوزیشن اتحاد پی ڈی اے تشکیل دیا۔ پھر نوازشریف کی حکومت الٹی تو پی ڈی اے‘ پی ڈی ایف میں بدل کر نگران عبوری حکمومت کا حصہ بن گیا۔
1993ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو پھر اقتدار میں آئیں تو ایم آر ڈی والی انکی اتحادی جماعتیں انکے خلاف ایک نئے اتحاد کمبائنڈ اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر متحد ہو گئیں اور انکی حکومت کا سیاپا شروع کر دیا۔ 1996ء کے انتخابات میں پھر نوازشریف اقتدار کے ایوانوں میں آپہنچے تو انکے خلاف پاکستان عوامی اتحاد تشکیل پایا جس کی قیادت ڈاکٹر طاہرالقادری کے حصے میں آگئی۔ یہ اتحاد انکی حکومت کے بخیئے ادھیڑتا رہا مگر جب اس اتحاد میں علامہ طاہر القادری کی زبردستی کی قیادت پر تنازعہ بڑھا تو ان کو اتحاد سے نکالنے کے لئے اے آر ڈی کے نام سے ایک نیا اتحاد تشکیل دے دیا گیا جو نواز شریف کی حکومت کے خاتمہ پر منتج ہوا تو پھر بحالی جمہوریت کی خاطر میاں نواشریف کی مسلم لیگ اسی اتحاد کا حصہ بن گئی اور لندن میں بیٹھ کر نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے ایک دوسرے کے ساتھ میثاق جمہوریت کرلیا۔ جب 2007ئ کے انتخابات کی منزل قریب آئی تو یہی اے آر ڈی ایک نئے اتحاد اے پی ڈی ایم میں بدل گئی اور عمران خان بھی اس اتحاد کا حصہ بن گئے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اے پی ڈی ایم نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو عمران خان بھی اس فیصلے کا حصہ بنے۔ مگر آصف زرداری نے نوازشریف کو انتخابات کا میدان خالی نہ چھوڑنے پر قائل کرلیا جبکہ عمران خان بائیکاٹ کے فیصلے پر ہی ڈٹے رہے۔
ماضی میں ایک دوسرے کی سیاست کا مردہ خراب کرنے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتیں باہم شیروشکر ہوئیں اور 2008ئ کی اسمبلی میں اقتداری شراکت دار بن گئیں۔ اگرچہ یہ سانجھ زیادہ دیر نہ چل پائی اور مسلم لیگ (ن) چھ ماہ بعد ہی اقتدار سے الگ ہو گئی مگر پیپلزپارٹی کی فرینڈلی اپوزیشن بنی رہی۔ عمران خان اسی عرصہ اقتدار میں محلاتی سازشوں کی سیڑھی پر چڑھائے گئے اور ایک ’’ٹکر‘‘ والے سیاسی قائد کے طور پر لانچ کئے گئے۔ طاہرالقادری انکے حلیف بنے اور انہوں نے باہم مل کر دھرنا سیاست کے ذریعے اودھم مچانا شروع کر دیا۔ طاہرالقادری تو پلو بچا کر نکل گئے مگر عمران خان محلاتی سیاست کے سرخیل بن گئے اور 2018ء کے انتخابات میں بالآخر وزارت عظمیٰ ان کا مقدر بن گئی۔ انکی جارحانہ سیاست نے انکی مخالف جماعتوں کو پی ڈی ایم کی شکل میں ایک نیا اتحاد تشکیل دینے پر مجبور کر دیا۔ پیپلزپارٹی کچھ عرصہ تک اس اتحاد کا حصہ رہی اور پھر اس سے باہر چھلانگ مار کر اپنی الگ سیاست شروع کر دی۔
عمران خان کا دم بھرنے والی نئی نسل کو شاید ہو کہ آصف زرداری کے بخیئے ادھیڑتے ادھیڑتے عمران خان بلوچستان میں نوازشریف کی حکومت کو الٹانے کیلئے اسی آصف زرداری کے شریک سیاست ہو گئے تھے اور پھر چیئرمین سینٹ کیلئے صادق سنجرانی انکے مشترکہ امیدوار بنے تھے۔ اسی طرح عمران خان ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کیخلاف مقدمہ درج کرانے کیلئے لندن جا پہنچے اور پھر اسی الطاف بھائی کی ایم کیو ایم کے ساتھ شراکت اقتدار کرلی۔
یہ سارا سیاسی منظرنامہ آج سیاست میں عمران خان کی سیاست کا دم بھرنے والے بیرسٹر اعتزاز احسن کی پیپلزپارٹی میں واپسی اور اسکے ساتھ ہی پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے عمران خان کے سیاسی بیانیے کے مطابق 90 دن کے اندر انتخابات کا تقاضا کرنے پر میری آنکھوں کے سامنے آیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اب یقینی طور پر اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد کی منصوبہ بندی کر چکی ہے تاکہ عمران خان انتخابی سیاسی منظر سے آئوٹ بھی ہوں تو بھی وہ ان کے ساتھ وابستہ ہمدردی کے ووٹ کو اپنے حق میں کیش کراسکیں۔ اس کیلئے شاید انہیں اعتزاز احسن کے ذریعے عمران خان کو قائل کرنا آسان نظر آیا ہوگا۔
مگر جناب! یہ سیاست تو 90 دن کے اندر انتخابات کے حوالے سے ہے۔ اگر یہ انتخابات دور ہوتے چلے گئے جس کے واضح اشارے بھی مل رہے ہیں تو پھر بحالئی جمہوریت کیلئے پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں ایک نئے سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم پر متحد ہو کر تحریک چلاتی نظر آئیں گی۔ تو بھائی صاحب! آپ اپنی مفاداتی سیاست میں عوام کو کب تک بے وقوف بناتے رہیں گے اور عوام بھی آخر کب تک اندھی عقیدت و نفرت کے غلبے میں بے وقوف بنتے رہیں گے۔ آج کے تلخ ماحول میں اپنی اپنی قیادتوں کے اخلاص کو جانچیئے اور اپنا مقدر خود سنوارنے کی فکر کیجئے۔ مفاداتی سیاست میں تو آپ کا مقدر باہمی مفاداتی سیاسی قائدین کے ہاتھوں استعمال ہونے والا ہی لکھا ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔