اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف والے خوش ہیں جبکہ ان کی حریف سیاسی جماعتوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایک طرف ہم مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں دوسری طرف سیاسی و معاشی استحکام چاہتے ہیں جب کہ ہمارے حالات یہ ہیں کہ ایک دن ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو سزا ہوتی ہے اگلے دن اس کی رہائی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے ساٹھ ستر برس میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم آج بھی سیاسی استحکام کے لیے راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ کیا اس ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں جس سے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا ہو سکے۔ عمران خان نے جیل سے باہر رہ کر جو تباہی کی تھی جو بچ گئی ہے وہ کام پورا کرنے باہر آئے ہیں۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ کسی کو فائدہ ہو یا نقصان ملک کا نقصان ضرور ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو ان دنوں کچھ مسائل کا سامنا ضرور ہے ورنہ وہ مہنگی بجلی کے خلاف کبھی احتجاج کا فیصلہ نہ کرتی۔ یہ بات طے ہے کہ اندرون خانہ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کے کچھ بڑے خاموش ہیں لیکن اردگرد سے آوازیں ضرور آ رہی ہیں۔ انتخابات کی ممکنہ تاخیر کو بنیاد بنا کر درحقیقت پاکستان پیپلز پارٹی کوئی اور کھیل کھیلنا چاہتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ جماعت آئین اور قانون کی بات کرتی ہے۔ سیاسی جدوجہد بھی کرتی رہتی ہے لیکن اس جدوجہد کا فائدہ عام آدمی کے بجائے اس جماعت کے بڑے لوگوں کو ہوا ہے۔ تاریخ گواہ یے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ملک کو اکثر و بیشتر بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ دو ہزار سات، آٹھ کی حکومت کو ہی دیکھ لیں ملک اندھیروں میں ڈوب گیا، سی این جی سٹیشنز پر گاڑیوں کی لائنیں لگ گئیں، بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ تھی، قرضوں کا بوجھ تھا، کاروبار کے برے حالات تھے لیکن ان ناکامیوں کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی چونکہ سب کو ساتھ ملانے اور سب کی ضروریات کو پورا کرنے کی حکمت عملی کے تحت کام کرتی ہے۔ وہ بڑے بڑے ضرورت مندوں کو ساتھ ملا کر کام کرتی ہے۔ چند بڑوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ ریاستی اداروں میں غیر ضروری بھرتیوں سے اداروں کا ستیا ناس ہوتا ہے۔ ملک کمزور ہوتا ہے لیکن اپنے پسندیدہ افراد اور ووٹرز کو خوش کر کے ملک کی مشکلات میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہی حالات ان دنوں بھی ہیں۔ بجلی کے بلوں پر بعد میں بات کرتا ہوں ان کی پاکستان کرکٹ بورڈ میں حالیہ واردات کو ہی دیکھ لیں۔ اچھا بھلا کرکٹ بورڈ چل رہا تھا وہاں نجم سیٹھی کی جگہ ذکا اشرف کو لگا دیا۔ اب جو کچھ ذکا اشرف کرکٹ بورڈ کے ساتھ کر رہے ہیں یا کریں گے وہ تو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتا ہی رہے گا۔ یعنی ملک کی ضرورت سے زیادہ اپنے بندے کو اس کی پسندیدہ جگہ پر لگانا زیادہ اہم ہے اور ملکی مفاد کو قربان کر کے ذکا اشرف کو خوش کر دیا گیا ہے۔ بجلی کے بلوں کے مسئلے پر ہی دیکھیں کیسے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی لاہور کے صدر چوہدری اسلم گل کے مطابق "پارٹی قیادت نے مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی عوام کے ساتھ کھڑی ہے، بجلی کے بلوں میں اضافے اور مہنگائی کے خلاف آج ریلی نکالی جا رہی ہے یہ ریلی پریس کلب سے شروع ہو کر پنجاب اسمبلی پر اختتام پذیر ہوگی۔دیگر علاقوں میں بھی مہنگائی اوربجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف بھر پور احتجاج کیا جائے گا۔"
ایسی ہی قلابازیوں، دوغلی اور دو رخی پالیسی پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یعنی بجلی مہنگی کرنے آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے اور عوام پر بجلی بم گرانے کے فیصلوں میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی حکومت سے نکلنے کے بعد اپنے ہی فیصلوں پر حکومت کے خلاف مظاہرہ کرے گی۔ اصل میں انہیں مظاہرین کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ وہ اپنی ہی جماعت کو برا بھلا بھی کہیں۔ کیونکہ یہ سارا کیا دھرا انہی کا ہے۔ یہی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ وہ عوام کو اندھیرے میں رکھتی ہیں دھوکے دیتی ہیں اور پھر ان کی محرومیوں پر سیاست ہوتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بجلی بنانے والی کمپنیوں کے کئی لوگ شاید کابینہ میں شامل تھے اس وقت ملکی بہتری کے لیے فیصلے کیوں نہ ہوئے۔ آج پی ٹی آئی والے اگر بجلی کے بلوں پر شور مچاتے ہیں تو انہیں شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے معاہدوں کو اپنے دور میں درست کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ کیوں ذاتی و مالی فائدے کے لیے زبان بند رکھی، وسائل سے محروم افراد کو گرمی اور بجلی کے بلوں سے لگی آگ میں جلنے کے لیے کیوں چھوڑا گیا۔ یہی سوال پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی ہونا چاہیے ، پاکستان مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ ق سے بھی ہونا چاہیے ان سب نے حکومت میں ہوتے ہوئے کس طرح توانائی کے متبادل ذرائع کو نظر انداز کیا اور ان ظالمانہ معاہدوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ آئی پی پیز پاکستانیوں کا خون چوس رہی ہیں اور اوپر بیٹھے چند لوگ مزے کر رہے ہیں۔ میرے ملک کے لوگ سخت موسم میں سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، میرے ملک کے لوگوں کو بجلی کے بل دیکھ دل دورے پڑ رہے ہیں لوگوں کی زندگیاں ختم ہو رہی ہیں لیکن اوپر بیٹھے چند لوگ پیسہ بنا رہے ہیں۔ اگر ان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو جمہوریت خطرے میں آتی ہے۔ سب سے آسان عام آدمی کی گردن پر پاؤں رکھنا ہے اور وہ مہنگی بجلی صورت میں رکھا جا چکا ہے۔ کراچی سے خیبر تک لوگ سراپا احتجاج ہیں لیکن پتھر دل سیاست دانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہونے والا کیونکہ یہ دہائیوں سے معصوم پاکستانیوں کا خون چوستے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ خود نہیں چاہتے کہ ملک خودمختار ہو، ادارے پھلیں پھولیں، ترقی کریں، انہیں باہر کے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران ملک و قوم کو ترجیح دیتے تو آج ملک کے یہ حالات نہ ہوتے۔ بدقسمتی ہے کہ ہماری صوبائی وفاداریاں ملکی مفاد سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ صوبائی سطح کر مضبوط سیاسی جماعتوں کو بھی ملکی مفاد کے پیش نظر سوچنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنی انا کو قربان نہیں کریں گے اس وقت تک بہتری ممکن نہیں ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملکی معیشت کی بحالی کیلئے نگران حکومت کے ساتھ پاک فوج کے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرصدارت سپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل کی اپیکس کمیٹی کے نگران حکومت کے پہلے اجلاس میں آرمی چیف نگران وفاقی وزرا، چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، صوبائی وزراء اور اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔ افواج پاکستان نے ہمیشہ ملکی مفاد کے پیش نظر سول حکومتوں کے ساتھ تعاون کو یقینی بنایا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مشکل حالات میں افواج پاکستان کی سربراہی سنبھالی ہے۔ بیرونی مدد سے ملک میں دہشتگردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ دشمن ہر طریقے سے پاکستان کے امن کو خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ دیگر بڑے مسائل بھی سامنے ہیں۔ ان حالات میں فوج نے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے بھی جمہوری حکومت کے منصوبوں کی مکمل حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم مل جل کر ہی مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ دشمن جہاں بھی ہے وہ پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ افواج پاکستان میں وطن کے دفاع اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کی بھرپور اہلیت ہے۔ پاکستان کے دشمن ناکام ہوں گے۔
آخر میں نعیم ضرار کا کلام
چراغ سر بہ کفن ہے وفا کے رستے میں
قدم لرزنے لگے ہیں ہوا کے، رستے میں
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی ہواؤں کو
چراغ جیسے ہی رکھا جلا کے رستے میں
خبر تھی اہل محبت گزرنے والے ہیں
شجر نے رکھ دیا سایہ اٹھا کے رستے میں
وہ جن کا شوق سفر دیکھ کر رفاقت کی
وہی بچھڑ گئے دامن چھڑا کے رستے میں
جنہیں ہماری سفارش پہ ساتھ رکھا گیا
وہ لوگ خوش ہیں ہمیں آزما کے رستے میں
بس ایک دیر ہے شبیر کے نکلنے کی
میں حْر بنوں گا نئے کربلا کے رستے میں
لپک پڑی ہیں سبھی منزلیں مری جانب
قدم اٹھا کے جو رکھا خدا کے رستے میں