اسلام آباد + اٹک (وقار عباسی/ وقائع نگار+ نمائندہ نوائے وقت+ نامہ نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بنچ نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہائی کا حکم دیدیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء بابر اعوان، بیرسٹر گوہر علی خان، شیر افضل مروت اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں علیمہ خانم اور عظمی خان بھی کمرہ عدالت موجود تھیں۔ عدالت نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرنے کا حکم سنادیا اور چیف جسٹس نے بابر اعوان ایڈووکیٹ سے کہا کہ آرڈر کی کاپی کچھ دیر بعد مل جائے گی۔ بعد ازاں عدالت نے8 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا۔ تحریری حکم نامہ میں عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے درخواست گزار کو الیکشن ایکٹ کی شق 167،183 کے تحت سزا دی گئی، دونوں طرف سے دی گئی عدالتی نظیروں کا بھی بغور جائزہ لیا گیا، ماتحت عدالت کی جانب سے درخواست گزار کو دی گئی تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا معطل کی جاتی ہے، ٹرائل کورٹ نے الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ پر سزا کا فیصلہ سنایا۔ سزا معطلی کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے قائم علی شاہ کیس کا حوالہ بھی شامل کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کیس میں سزا معطل ہو، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ضمانت دینا یا انکار کرنا ہائیکورٹ کی صوابدید ہے، اس کیس میں دی گئی سزا کم دورانیے کی ہے، عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حقدار ہے، سزا معطلی کی درخواست منظور کر کے پانچ اگست کو ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے، درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرانے پر ضمانت پر رہا کیا جائے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالتی دائرہ اختیار اور دیگر غور طلب ایشو کو سزا معطلی درخواست میں طے نہیں کیا جا رہا۔ فریقین کی جانب سے ان ایشوز پر تفصیلی دلائل دیے گئے مگر انہیں اپیل میں decide کیا جائے گا۔ عدالت نے تحریری فیصلہ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کے خلاف نیب اپیل پر سپریم کورٹ فیصلہ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ نے سزا معطلی فیصلوں میں طویل آرڈر جاری کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ ادھر عدالتی احکامات کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی کے ضمانتی مچلکے جمع نہ ہونے پر روبکار جاری نہ ہوسکی۔ بیرسٹر گوہر علی خان کاکہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے ضمانتی مچلکے آج بدھ کو جمع کرائیں گے۔ اسلام آباد سے نمائندہ نوائے وقت کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے تحریری حکم جاری کیا ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے تحریری حکمنامہ سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو بھیج دیا ہے جس میں عدالت نے چیرمین پی ٹی آئی کو 30 اگست کو عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں 30 اگست تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں رکھنے کا تحریری حکمنامہ سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو ارسال کر دیا۔ اٹک جیل حکام کو لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے ملزم عمران خان نیازی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ مراسلے میں جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے کہا کہ ملزم عمران خان نیازی کو جیل میں ہی قید رکھا جائے اور 30 اگست (بروز بدھ) کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔ پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ دوسری جانب اٹک سے نامہ نگار کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ سے تو شہ خانہ کیس میں سزا معطل ہونے پر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو رہائی کے بعد سائفر کیس میں پھر گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ پی ٹی آئی کے تین سرگرم کارکنوں کو رہائی کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ توشہ خانہ کیس کی سزا معطل ہونے کے بعد سابق خاتون اول بشریٰ بی بی اور خان کی دو ہمشیرہ حلیمہ خان اور عظمیٰ خان ان سے ملاقات کرنے ڈسٹرکٹ جیل اٹک پہنچ گئیں۔ اس موقع پر بیرسٹر راشد سلیمان کی قیادت میں لیگل ٹیم نے ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملا قات کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے9مئی واقعات کے بعد درج مقدمات میں عدم پیروی پر چھ کیسز میں ضمانت خارج ہونے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستوں میں وکیل کو اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا مناسب آرڈر جاری کریں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ سیشن کورٹ نے ضمانت کی چھ درخواستیں عدم پیروی پر خارج کیں، سیشن کورٹ نے ان چھ مقدمات میں میرٹ کو نہیں دیکھا، اٹک جیل سے عدالت چیئرمین پی ٹی آئی کو بلا بھی سکتی تھی، ڈیوٹی جج نے ہماری درخواست نہیں دیکھی اور ضمانت عدم پیروی خارج کردیں، سپریم کورٹ نے کوئٹہ کیس میں ہماری حفاظتی ضمانت میں توسیع کی، ہم نے سپریم کورٹ کا آرڈر سیشن کورٹ کے سامنے رکھا لیکن انہوں نے دیکھا ہی نہیں، توشہ خانہ کیس میں آج فیصلہ آنا ہے ہمیں خدشہ ہے کہ ضمانت ہونے پر گرفتاری ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اعتراض میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وہی ضمانت قبل از گرفتاری سنی جائے گی یا نئی ہو گی؟، جس پر وکیل نے کہاکہ ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں زیر التوا رہیں گے۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قابل سماعت ہونے کا معاملہ میں جوڈیشل سائیڈ میں دیکھوں گا، آرڈر پاس کریں گے۔ چیف جسٹس نے وکیل سلمان صفدر کی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست پر کہا کہ اس حوالے سے میں آرڈر پاس کر دوں گا، میرے علم کے مطابق فیملی کی منگل اور وکلا کی جمعرات کو ملاقات کا شیڈول ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے دیگر مقدمات میں گرفتاری سے بچنے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔ درخواست میں وفاق اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ایف آئی اے، نیب اور پولیس کو گرفتاری سے روکے اور عدالت فوری درخواست پر سماعت کرے۔