وزیر اعظم صاحب معیشت کی درستگی پر توجہ دیں

امیر محمد خان   
ملک کی ترقی کیلئے اور ہمارے جیسے ملک کیلئے جہا ں ہمیں مضبوط اقتصادی پالیسوں، اور امن و امن کی اشد ضرورت ہے وہاں ہمار ے کرتا دھرتا ناکام نظر آرہے ہیں بنیادی سب سے پہلا مسئلہ امن و امان کا ہے کپتان حکومت کے خاتمے ، کپتان حکومت کو اسلام آباد کی کرسی پر بٹھانے کیلئے پوشیدہ ہاتھ جو اب پوشیدہ نہیں رہے ، حکومت کے خاتمے کے بعد امن و امان کے حوالے سے جو کچھ پاکستان کی سڑکوںپر ملک کی جڑوں کو کمزور کرنےوالے مناظر عوام نے دیکھے مگر افسوس کے وہ مناظر ہماری عدلیہ، ہمارے کرتا دھرتا شائد نہ دیکھ سکے یہ ایسے واقعات تھے جنکے مجرم چوبیس گھنٹے نہیں تو کم از کم ایک ہفتہ میں سنگین سزاﺅںکے مستحق تھے مگر ایسا نہ ہوسکا 16ماہ ہوچکے ہیں اورملک میں افرا تفریح پھیلانے والے مضبوط ہورہے ہیں ، بیرون ملک میں انکے حواریوںنے نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں میں را ہ رسم بڑھا کر ، پاکستان کے نام پر کمایا جانی والی دولت لٹا کر 9مئی کے شاہکاروں کو جلا بخشی ہے اور قانونی اداروںسے رہائی حاصل کرکے فتح کا نشان بناتے ہوئے گھروںکو چلے جاتے ہیںانصاف میں تاخیر مزید تباہی کا ذریعہ بنی ہے اور تاحال کوئی امید نہیں ۔لگتا ہے ایسا ہی چلتا رہےگا اور پھر انتخابات یا کسی نگران حکومت کی طرف چلے جائینگے ، ماضی قریب کی نگران حکومت بھی ایک تماشہ تھی ، بھانت بھانت کے لوگ بھرتی ہوئے اور انہوںنے اپنی ماتحت وزارتوں میںاپنے حواریوںکو بھرتی کیا ۔ اب حکومت جلسے روکنے پر اپنی توانائیاںخرچ کررہی ہے جس سے خوامخواہ میں کپتان معصوم بنکر اپنی جماعت کا ووٹ بڑھا رہا ہے ، ایک وقت تھا شہید ذولفقار علی بھٹو کی جماعت کے لئے مشہور ہوچلا تھا کہ گر وہ پی پی پی کے نام پر بجلی کے کھمبے کو بھی کھڑا کردے تو عوام اسے ووٹ دیکر کامیاب کردایںگے ۔ وہ توبھلا ہو کپتان کی جماعت کے خود ساختہ لیڈران کا جوجماعت پر قبضہ کرنے کیلئے مختلف گروہوں میں دن رات مصروف ہیں اس اقدام سے شائد موجودہ حکومت کو کچھ فائدہ ہوجائے جس میں میاں شہباز شریف کے وزراءکا کوئی کارنامہ نہیں ، انصاف کی تاخیر اور دنیا کے عجیب ترین مراعات یافتہ قیدی کی روزآنہ جیل میں پریس کانفرنسوں، جماعت کے مختلف دھڑوںسے اجلاس ، جیل سے احکامات نے عوام کے ذہنوںکو نقصان پہنچایا ہے کہ ”ہم کس ملک اور اور کس قانون “ کے تحت رہ رہے ہیں،ہمارے ملک کے کرتا دھرتا چاہتے کیا ہیں؟؟؟موجودہ وزراءلگتاہے نوکر شاہی کی پر تکیہ کئے ہوئے ہیں ، نوکر شاہی بھی عجیب مخلوق ہوتی ہے ، جب تک تنخواہوں اور مراعات حاصل کرتی ہے بقول صحافت کے قائد محترم مجیدنظامی نے مجھے ایک مسئلے پر کہا تھا نوکر شاہی تنخواہ اور مراعات لیکر محب وطن ہوتی ہے ، جبکہ ملک کے ایماندار صحافی اور عوام رضا کارآنہ محب وطن ہوتے ہیں۔ اسکا تجربہ مجھے جدہ میں گزشتہ تیس سال رہتے ہوئے اندازہ ہے ، تنخواہ دار نوکر شاہی کی باتیں سنین تو وہ بات چیت سے قائد اعظم کا بھائی نظر آتا ہے ، اور ریٹائرمنٹ کے بعدکبھی ان سے ملیں تو وہ ملک کے مستقبل سے شاکی ہوتا ہے ، کالم کہیں اورنکل رہا ہے ، ہمیشہ کی طرح میری خواہش اور ہر محب وطن پاکستانی کی خواہش ہے کہ ہماری
 معیشت درست سمت جائے ، حکومت کی شاہ خرچیوںپر قابو پایا جائے ،جو اربوںروپے لوٹ رہے ہیں یا لوٹ چکے ہیں اورکہیںنہ کہیں حکومت میں بیٹھے ہیں یا تاحال مراعات لے رہے ہیںملک میںمعاشی ایمرجینسی لگا کر وہ دولت بھر پور قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے خزانے میں واپس ڈالی جائے اگر میاں شہباز شریف ایسا کر بیٹھے تو اصل معنوں میں ”خادم پاکستان“بن جائینگے ، ان میں
 صلاحیتیں ہیں مگر نہ جانے کیوںہاتھ بندھے ہیں، بقول میاںنواز شریف کے کہ اگر ہاتھ باندھ کر حکومت کرنا ہے تو حکومت چھوڑ دو( یہ بات میاںنواز شریف کو بھی تاخیر سے سمجھ سے آئی ہے) ۔ میاںخاندان تجارتی مہارت کے حوالے سے معروف ہے اس میںوزیر اعظم شہباز شریف سر فہرست ہیںجو اقربا ءپروری اور کرپش سے پاک ہیں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کراسکتے ہیں اسی لئے وزارت اعظمی کیلئے ہمیشہ نظر ان پر جاکر ٹھیرتی ہے ۔ وہ ملک کی اقتصادی معاملات کو درست کرنے کیلئے بلا خوف سخت اقدامات کرسکتے ہیںعوام انکے ساتھ ہوگی ( اگر عوام کی رائے کوئی معنی رکھتی ہے تو )پاکستان کو کئی اقتصادی مسائل کا سامنا ہے، جن میں افراط زر کی بلند شرح، بڑے مالیاتی خسارے، سرمایہ کاری کی کم سطح اور عوامی قرضوں کی بلند سطح شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، ملک غربت، بے روزگاری، اور آمدنی میں عدم مساوات کی بلند سطح کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔ حکومت کو بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات کی فراہمی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات، بہتر طرز حکمرانی، اور اقتصادی ترقی اور ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے ہدف شدہ پالیسیاں شامل ہوں۔ پاکستان کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ یہاں کچھ ممکنہ حل ہیں جو ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتے ہیں:
 ملک کے خسارے کو کم کرنے اور عوامی قرضوں کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے بہادر مالیاتی پالیسیوں کا نفاذ پیداواری صلاحیت اور مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے زراعت، توانائی، اور مالیاتی خدمات جیسے اہم شعبوں میں ساختی اصلاحات کرنا۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنا کر، ریگولیٹری رکاوٹوں کو دور کرکے، اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مراعات فراہم کرکے سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا۔سوشل سیفٹی نیٹس**: کمزور آبادی کو معاشی جھٹکوں سے بچانے اور غربت کو کم کرنے کے لیے سماجی تحفظ کے جال کا نفاذ۔
تعلیم اور ہنر کی نشوونما کیلئے : انسانی سرمائے کو بڑھانے اور ملازمت میں اضافہ کرنے کے لیے تعلیم اور ہنر کی تربیت کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا ۔ 
تجارتی تنوع**: برآمدی منڈیوں اور مصنوعات کو متنوع بنانا تاکہ چند شعبوں اور ممالک پر انحصار کم کیا جا سکے۔
گڈ گورننس**: کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اداروں کو مضبوط کرنا، شفافیت کو بڑھانا، اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا۔
علاقائی تعاون**: اقتصادی ترقی اور انضمام کو فروغ دینے کے لیے علاقائی تعاون اور تجارتی روابط کو بڑھانا۔
یہ صرف کچھ وسیع حکمت عملی ہیں جو پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ ان حلوں کے نفاذ کے لیے مضبوط سیاسی عزم، موثر پالیسی سازی، اور حکومت، نجی شعبے، سول کے درمیان تعاون کی ضرورت ہوگی۔
وزیر اعظم صاحب معیشت کو بہتر کرلیں یہ ہی مسلم لیگ کو عوام مقبول کرسکتی ہے ، امن وامان کا مسئلہ وزیر داخلہ محسن نقوی پر چھوڑ دیں وہ ہنس کر سبکو منا لیتے ہیں۔ بقیہ رہ گئے 9 مئی کے شاہکار انکا سولہ ماہ کی تاخیر کے بعد کیا ہوگا اللہ ہی جانے ۔
 
 

ای پیپر دی نیشن