کچے کے'' پکے '' ڈاکوﺅں کا پولیس وین پر حملہ

ارتقاء نامہ …سید ارتقاءاحمد زیدی
irtiqa.z@gmail.com

20اگست کو رحیم یار خان میں کچے کے علاقے ماچھکہ میں ڈاکوﺅں نے گھات لگا کر دو پولیس وین پر راکٹ لانچوں سے حملہ کرکے 12پولیس اہلکاروں کو شہید اور 7کو زخمی کر دیا۔اگرچہ کچے کے ڈاکوﺅں سے مقابلے میں اس سے پہلے بھی پولیس اہلکار شہید اور زخمی ہوتے رہے ہیں لیکن اس نوعیت کا سانحہ پہلے نہیں ہوا تھا۔ جس میں پولیس کے اتنے زیادہ اہلکار شہید ہوئے ہوں۔ چونکہ یہ ایک سنگین نوعیت کا سانحہ تھا اس لئے حکومت نے کچے کے ڈاکوﺅں سے نمٹنے کے لئے ایک مو¿ثر حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کچے کے ڈاکو کون ہیں۔ انہیں اسلحہ کون فراہم کر رہا ہے۔ کب سے یہ مجرمانہ کاروائیاں کر رہے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے اَب تک کیا قدم اٹھائے گئے ہیں؟ تفصیل یہ ہے جنوبی اور وسطی سندھ اور پنجاب میں رحیم یار خان میں دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر واقع جنگلات میں کچے کے ڈاکوﺅں نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔ وہ چھپ کر اور گھات لگا کر لوگوں کو لوٹتے ہیں اور اکثر لوگوں کو اور پولیس اہلکاروں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرتے ہیں۔ ان کے پاس پولیس کے مقابلہ میں جدید ترین اسلحہ موجود ہے جس میں راکٹ لانچر اور زمین سے ہوا میں مار کرنے والے راکٹ بھی شامل ہیں۔یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ یہ اسلحہ ان کے پاس کہاں سے آیا۔ زیادہ تر اسلحہ تو وہ پولیس سے چھین لیتے ہیں لیکن راکٹ لانچرز تک ان کی رسائی ناقابل فہم ہے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہاہے کہ کوئی منظم ملک دشمن گروہ ہے جو اِن کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرنے کے علاوہ ان کے سہولت کار کے طور پر بھی کام کر رہا ہے۔ ڈاکوﺅں کی سرپرستی کے بارے میں بارہا یہ خدشہ ظاہر کیا جا چکا ہے۔ سندھ میں یہ کام وہ سیاستدان انجام دے رہے ہیں جن کے پاس بے شمار دولت اور جاگیریں اور وہ اپنے علاقے میں اس قدر بااثر ہیں کہ اپنی مرضی سے عام لوگوں پر دہشت گردی کے ذریعہ حکومت کر رہے ہیں۔ لوگوں سے بے گار لینا۔ حکم نہ ماننے والوں کو اپنی ذاتی جیلو ں میں قید کرنا، ان کے لئے ایک معمولی کام اور ان ڈاکوﺅں کے ذریعے اپنے مدِ مقابل زمینداروں اور سیاسی مخالفین کے گھروں پر ڈاکے پڑواتے ہیں اور پولیس کاروائی سے بچانے کے لئے انہیں پناہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی حکومت کو نہیں مانتے اور ریاست کے اندر اپنی ریاست بنا رکھی ہے۔کچے کے ڈاکوﺅں سے صرف پولیس مو¿ثر طریقے سے نہیں نمٹ سکتی۔ ماچھکہ میں پولیس وین پر کچے کے ڈاکوﺅں کا راکٹ لانچرز سے حملہ حکومت کے لئے ایک چیلنج ہے۔ کچے کے ڈاکوﺅں کا مکمل طور پر قلع قمع ناگزیر ہوگیا ہے۔چند تجاویز پیش کر رہا ہوں ضرور کچھ قابل عمل ہوں گی۔1صرف پولیس کچے کے ڈاکوﺅں سے نہیں لڑ سکتی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس جدید اسلحہ موجود نہیں نہ ہی ان کی گوریلا وار کی کوئی ٹریننگ ہے۔ ڈاکوﺅں کے پاس جدید اسلحہ اور راکٹ لانچر موجود ہیں۔ ان کے سہولت کار بھی موجود ہیں۔ جو پولیس کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں ا ور ڈاکوﺅں کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔ جو گھات لگا کر حملہ کرتے ہیں اور جنگلوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ پولیس ان کا پیچھا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ جنگل کے راستوں سے نہ واقف ہے۔2پولیس کی مدد کے لئے رینجرز اور اگر ضرورت پڑے تو آرمی کے کمانڈوز کی خدمات حاصل کرنی چاہیئے۔ہماری بہادر مسلح افواج جب ٹی ٹی پی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے تو یہ کچے کے ڈاکو ان کے سامنے کیا چیز ہیں۔ لیکن یہ کام شروع کرنے سے پہلے حکومت کو یہ مصمم ارادہ کر لینا چاہیئے کہ ہر صورت اسے کامیابی سے مکمل کیا جائے گا چاہے کتنے بھی بار سوخ وڈیرے یا سیاسی افراد اس کام کو رکوانے کی کوشش کریں۔3پاکستان کے تمام فوجی اور غیر فوجی خفیہ اداروں کے اشتراک سے پورے ملک میں واقع کچے کے علاقوں کی ڈرون کے ذریعے ویڈیو تیار کی جائیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ڈاکوﺅں کی پناہ گاہوں پر اچانک مختلف اطراف سے آپریشن شروع کیا جائے۔ اس آپریشن میں کسی ڈاکو کو گرفتار نہ کیا جائے بلکہ سب کو جہنم واصل کیا جائے کیونکہ ہمارے موجودہ عدالتی نظام کے ذریعے مجرم کو مشکل سے ہی قرار واقعی سزا ملتی ہے اور اکثر مجرم ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ڈاکوﺅں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہماری مسلح افواج نے سری لنکا کی درخواست پر تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن شروع کیا اور ایک قلیل عرصے میں ان کا سری لنکا سے مکمل صفایا کر دیا۔ جبکہ تامل ٹائیگرز کی انڈیا کھل کر مدد کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا کی حکومت پاکستان کی بڑی قدر کرتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیتی ہے۔ حکومت کو مسلح افواج کی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔امید ہے کہ انشائ اللہ کچے کے ڈاکوﺅں کا مکمل خاتمہ کرنے میں حکومت ضرور کامیاب ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی لکیریں

منظر الحق Manzarhaque100@gmail.com  قدیم زمانوں میں دنیا کی ہیئت آسان ہوا کرتی تھی،جغرافیائی سرحدوں و لکیروں کا نام و نشان تک نہ ہوتا ...